Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 90
بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ اَنْ یَّكْفُرُوْا بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بَغْیًا اَنْ یُّنَزِّلَ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ١ۚ فَبَآءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰى غَضَبٍ١ؕ وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ
بِئْسَمَا : برا ہے جو اشْتَرَوْا : بیچ ڈالا بِهٖ : اسکے بدلے اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ اَنْ يَكْفُرُوْا : کہ وہ منکرہوا بِمَا : اس سے جو اَنْزَلَ اللہُ : نازل کیا اللہ بَغْيًا : ضد اَنْ يُنَزِّلَ : کہ نازل کرتا ہے اللہُ : اللہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنافضل عَلٰى : پر مَنْ يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے مِنْ : سے عِبَادِهٖ : اپنے بندے فَبَآءُوْا : سو وہ کمالائے بِغَضَبٍ : غضب عَلٰى : پر غَضَبٍ : غضب وَ : اور لِلْکَافِرِیْنَ : کافروں کے لئے عَذَابٌ : عذاب مُهِیْنٌ : رسوا کرنے والا
بری ہے وہ چیز جس کے عوض میں انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا ہے،312 ۔ کہ انکار کرتے ہیں اس (کلام) کا جو اللہ نے نازل کیا ہے (محض) اس ضد پر کہ اللہ نے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہا اپنا فضل (خاص) نازل کیا،313 ۔ سو وہ مستحق ہوگئے غضب بالائے غضب کے،314 ۔ اور کافروں کے لیے عذاب ذلت والا ہے،315 ۔
312 ۔ یعنی کیسی بری وہ حالت ہے، جسے اختیار کر کے وہ بزعم خود اپنی جانوں کو عقوبت آخرت سے چھڑانا چاہتے ہیں بئس ما باعوا بہ حظ انفسھم اے اختاروا الکفر وبذلوا انفسھم للنار (معالم) اشتراء لغات اضداد میں سے ہے۔ خریدنے اور فروخت کرنے دونوں کے معنی میں آتا ہے۔ یہاں بیچنے کے معنی میں ہے۔ الاشتراء ھھنا بمعنی البیع (معالم) معناہ باعوا (بیضاوی) ، 313 ۔ قرآن نے اس حقیقت کو بار بار صاف کیا ہے کہ یہود کا یہ کفر و انکار کسی اجتہادی غلطی کی بنا پر، فکر ونظر کے کسی دھوکے یا مغالطہ کی بنا پر نہ تھا۔ بلکہ اس غصہ وعناد کا نتیجہ تھا کہ نبوت خاندان اسرائیل سے نکل کر بنی اسمعیل (علیہ السلام) کے ایک فرد کو کیوں مل رہی ہے ؟ وہی نسلیت یا قومیت کی ملعون عصبیت جو آج تک دنیا پر مسلط ہے۔ امام رازی (رح) کی خداداد نظر قرآن حکیم کے عجب عجب نکتوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اس مقام پر لکھا ہے کہ یہود تو نبوت کو اپنا موروثی حق سمجھنے لگے تھے۔ ایک عرب کو اس کا مدعی پاکر الٹے اس کے رشک وحسد پر اسے محمول کرنے لگے۔ ظنوا ان ھذا الفضل العظیم بالنبوۃ المنتظرۃ یحصل فی قومھم فلما وجدوہ فی العرب حملھم ذلک علی البغی والحسد (کبیر) کیا حد ہے اس ضد اور نفسانیت کی کہ نسلی وخاندانی عصبیت کی بنا پر تصدیق نبوت تک سے انکار کردیا ! (آیت) ” من فضلہ “ سے مراد فضل وحی ہے۔ یعنی الوحی (بیضاوی) مرشد تھانوی نے فرمایا کہ احوال موہوبہ محض فضل ومشیت کے تابع ہوتے ہیں۔ کسب واکتساب کو دخل نہیں۔ 314 ۔ (آیت) ” غضب علی غضب “ کی تفسیر میں بہت سے قول نقل ہوئے ہیں، ان میں سے ایک قول تابعی حضرات سے منقول یہ ہے کہ یہود کی پہلی مغضوبیت کی بنیاد رسالت عیسوی سے انکار ہے۔ اور دوسری مغضوبیت کی بنیاد رسالت محمدی سے انکار۔ وھو قول الحسن والشعبی وعکرمۃ وابی العالیہ وقتادۃ (کبیر) یہ تفسیر بھی اپنی جگہ پر بہت خوب ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ دلنشین اور بےتکلف قول یہ ہے کہ پہلا عتاب ان کے بالکل بلاوجہ اور دلیل واضح وصریح کی موجودگی میں انکار تکذیب رسالت پر ہے۔ اور دوسرا عتاب ان کے جذبات حسدوعناد پر۔ لانھم کفروا بنبی الحق وبغواعلیہ (کشاف) للکفر والحسد (بیضاوی) بما اقترفوا من الکفر والحسد (روح) یہ معنی بھی کیے گئے ہیں کہ مقصود کلام ان غضب کی تکرار نہیں بلکہ اس کی تاکید اور اشدیت ہے۔ المراد بہ تاکید الغضب وتکثیرہ (کبیر) ویحتمل ان یراد الترادف والتکاثر لاغضبان (روح) 315 ۔ عذاب الہی کا نہایت شدیدوالیم ہونا تو ظاہر ہی ہے پھر اس عذاب کی بنا چونکہ یہود کی قومی منافرت ونسلی عصبیت ہے، اس مناسبت سے یہ سزا ان کے غرور کو توڑنے والی، ان کی توہین، ذلت ورسوائی کو بڑھانے والی بھی ہوگی ،
Top