Tafseer-e-Majidi - Al-Anbiyaa : 104
یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ كَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ١ؕ كَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُهٗ١ؕ وَعْدًا عَلَیْنَا١ؕ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِیْنَ
يَوْمَ : جس دن نَطْوِي : ہم لپیٹ لیں گے السَّمَآءَ : آسمان كَطَيِّ : جیسے لپیٹا جاتا ہے السِّجِلِّ : طومار لِلْكُتُبِ : تحریر کا کاغذ كَمَا بَدَاْنَآ : جیسے ہم نے ابتدا کی اَوَّلَ : پہلی خَلْقٍ : پیدائش نُّعِيْدُهٗ : ہم اسے لوٹا دیں گے وَعْدًا : وعدہ عَلَيْنَا : ہم پر اِنَّا كُنَّا : بیشک ہم میں فٰعِلِيْنَ : (پورا) کرنے والے
وہ دن (یاد رکھنے کے قابل ہے) جس روز ہم آسمان کو لیپٹ دیں گے جس طرح طومار کاغذات لپیٹ لیا جاتا ہے جس طرح ہم نے اول بار پیدا کرنے کے وقت ابتدا کی تھی اسی طرح اسے دوبارہ کردیں گے یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے ہم ضرور اسے کرکے رہیں گے،139۔
139۔ قرآن مجید وقوع قیامت اور اس روز کی ہولناکیوں اور بشارتوں دونوں کا ذکر اسی کثرت اور اسی قطعیت کے ساتھ اسی لیے کرتا ہے کہ مخاطبین کے دل میں عقیدہ آخرت راسخ ہوجائے۔ ساری نیکیوں کی جڑ اور بنیاد یہی ہے کہ عقیدہ آخرت محض ایک نظریہ یا وہم و گمان کی طرح نہ رہے بلکہ جزم کا مل ووثوق کے ساتھ دل کی گہرائیوں میں اتر جائے اور قال حال بن جائے۔
Top