Tafseer-e-Majidi - Al-Anbiyaa : 105
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ
وَلَقَدْ كَتَبْنَا : اور تحقیق ہم نے لکھا فِي الزَّبُوْرِ : زبور میں مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ : نصیحت کے بعد اَنَّ : کہ الْاَرْضَ : زمین يَرِثُهَا : اس کے وارث عِبَادِيَ : میرے بندے الصّٰلِحُوْنَ : نیک (جمع)
اور ہم نے کتب آسمانی میں لکھ رکھا ہے،140۔ لوح محفوظ (میں لکھنے) کے بعد،141۔ کہ زمین (جنت) کے وارث میرے نیک بندے ہی ہوں گے،142۔
140۔ زبور کہتے ہیں ہر لکھی ہوئی کتاب کو اور الزبور اسم جنس ہے ہر کتاب آسمانی کے لیے۔ لغت کے حوالوں کے لیے ملاحظہ ہوپ 6 حاشیہ نمبر 35 یہاں بھی محققین نے مراد (آیت) ” الزبور “ سے کل کتب آسمانی بہ طور اسم جنس لی ہیں۔ عنی بالزبور کتب انبیاء کلھا التی انزلھا علیھم (ابن جریر) مجاہد نے کہا ہے کہ (آیت) ” الزبور “ کتاب ہے۔ الزبور الکتاب (ابن جریر۔ عن مجاہد) ابن زید تابعی سے منقول ہے کہ (آیت) ” الزبور “ کتب آسمانی ہیں۔ الزبور الکتب التی انزلت علی الانبیاء (ابن جریر۔ عن ابن زید) 141۔ ذکر کے معنی حدیث صحیح میں لوح محفوظ کے آچکے ہیں۔ ایک حدیث کے درمیان آتا ہے کان اللہ ولم یکن شیء قبلہ وکان عرشہ علی الماء وکتب فی الذکر کل شئی وخلق السموت والارض (صحیح بخاری کتاب بدء الخلق) یہی حدیث خفیف تغیر کے ساتھ کتاب التوحید میں بھی نقل ہوئی ہے۔ جہاں ذکر کے صریح معنی لوح محفوظ کے ہیں۔ اے فی محل الذکر اے فی اللوح المحفوظ (فتح الباری) اے اللوح المحفوظ (عینی) اے فی اللوح المحفوظ (مجمع البخار) آیت میں بھی مراد اس نوشتہ سے لی گئی ہے جو آسمان پر ہے یعنی وہی لوح محفوظ۔ عنی بالذکر ام الکتاب التی عندہ فی السماء (ابن جریر) ابن زید تابعی مجاہد تابعی اور سعید بن جبیر تابعی سے بھی یہی معنی منقول ہے۔ الذکر الذی فی السماء (ابن جریر۔ عن سعید) الذکرام الکتب الذی تکتب فیہ الاشیاء قبل ذلک (ابن جریر۔ عن ابن زید) الذکرام الکتب عن اللہ (ابن جریر۔ عن مجاہد) خود امام جریر نے بھی ترجیح اسی معنی کو دی ہے۔ واولی ھذہ الاقوال عندبالصواب فی ذلک ماقالہ سعید بن جبیر و مجاھد۔ اور ثوری نے صراحت کے ساتھ اس کے معنی لوح محفوظ کے بتائے ہیں، ھو اللوح المحفوظ (ابن کثیر۔ عن الثوری) 142۔ قرآن میں الارض کا اطلاق ارض جنت پر بھی ہوا ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں (آیت) ” الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ واورثنا الارض نتبوا من الجنۃ حیث نشآء (الزمر) چناچہ یہاں بھی یہی معنی محققین سے منقول ہیں اور اس طبقہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے لے کر اکابر تابعین تک سب ہی شامل ہیں۔ قال ابن عباس ؓ ارض الجنۃ وکذا قال ابو العالیۃ و مجاھد و سعید بن جبیر والشعبی وقتادۃ والسدی وابوصالح والربیع بن انس والثوری (ابن کثیر) یعنی بذلک ان ارض الجنۃ یرثھا عبادی العاملون بطاعتہ (ابن جریر) الفاظ کی اس تشریح کے بعد مطلب بالکل صاف ہے۔ یعنی لوح محفوظ میں لکھ دینے کے بعد ہم نے کتب آسمانی میں بھی یہ قاعدہ لکھ دیا ہے کہ زمین بہشت کے مالک تو بندگان صالح شریعت پر چلنے والے ہی ہوں گے۔ گویا آیت تمامتر مومنین کے حق میں ایک بڑی بشارت اخروی ہے۔ لیکن یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ ” ہم نے کتاب زبور (صحیفہ داؤد (علیہ السلام) نبی) میں لکھ رکھا ہے بعد نصیحت کے کہ زمین کے مالک میرے نیک بندے ہوں گے “۔ چناچہ بہت سے اہل تفسیر ادھر بھی گئے ہیں۔ اس صورت میں یہ آیت مومنین کے حق میں ایک بشارت دنیوی نعمت یعنی زمینی بادشاہت کی ہوگی۔ اور اگر الارض سے مراد ارض موعود لی جائے۔ یعنی ملک شام (جیسا کہ بہت سے اہل تفسیر نے مراد سمجھی ہے) جب تو یہ پیشگوئی عہد صحابہ میں پوری طرح پوری ہو کر رہی۔۔ صحیفہ زبور میں بھی یہ الفاظ ملتے ہیں :۔” صادق زمین کے وارث ہوں گے “ (37: 29)
Top