Tafseer-e-Majidi - Al-Anbiyaa : 69
قُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَۙ
قُلْنَا : ہم نے حکم دیا يٰنَارُكُوْنِيْ : اے آگ تو ہوجا بَرْدًا : ٹھنڈی وَّسَلٰمًا : اور سلامتی عَلٰٓي : پر اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم
ہم نے حکم دیا اے آگ تو ٹھنڈی اور بےگزند ہوجا ابراہیم (علیہ السلام) کے حق میں،86۔
86۔ جو خدا آگ کو جلانے کا حکم دیتا رہتا ہے، وہ اس پر بھی اسی آسانی سے قادر ہے کہ اسے نہ جلانے کا حکم دے دے، یہ کہنا کہ آگ تو جماد ولا یعقل وبے شعور ہے، اس سے خطاب کیونکر ہوگا۔ عجیب احمقانہ اعتراض ہے۔ آگ کی جمادیت، بےشعوری وغیرہ اگر ہے تو ہماری نسبت سے ہے یا خود خالق کائنات کی نسبت سے بھی ؟ (آیت) ” علی ابراہیم “۔ کی قید سے قرینہ اس کا نکلتا ہے کہ آگ کی تبدیل ماہیت نہ ہوئی ہو، وہ وہی بدستور آگ ہی ہو البتہ موذی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حق میں نہ رہی ہو یا اس کے علاوہ بھی کوئی صورت فرض کی جائے، واقعہ خارق عادت تو بہر حال وبہر صورت تھا۔ (آیت) ” سلما “۔ حذف مضاف کے ساتھ ہے۔ یعنی سلامتی والی والمعنی ذات برد وسلامۃ (کشاف) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ بعض اولیاء امت سے جو اسی قسم کی کرامتیں منقول ہیں وہ اسی قصہ کی نظیر ہیں۔
Top