Tafseer-e-Majidi - Al-Hajj : 27
وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰى كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍۙ
وَاَذِّنْ : اور اعلان کردو فِي النَّاسِ : لوگوں میں بِالْحَجِّ : حج کا يَاْتُوْكَ : وہ تیرے پاس آئیں رِجَالًا : پیدل وَّعَلٰي : اور پر كُلِّ ضَامِرٍ : ہر دبلی اونٹنی يَّاْتِيْنَ : وہ آتی ہیں مِنْ : سے كُلِّ فَجٍّ : ہر راستہ عَمِيْقٍ : دور دراز
اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو لوگ تمہارے پاس پیدال بھی آئیں گے اور دبلی اونٹنیوں پر بھی جو دور دراز راستوں سے پہنچی ہوں گی،38۔
38۔ مقصود یہ ہے کہ جو آنے والے ہیں ہر حال میں آئیں گے۔ خواہ سواری نصیب نہ ہو، پیدل ہی آنا پڑے۔ سواری کے جانور ملیں مگر مشقت سفر سے وہ ہلکان ہوہوجائیں۔ یا مسافت بہت دور دراز کی طے کرنا پڑے (ملاحظہ ہو ضمیمہ سورة ہذا) ابراہیم (علیہ السلام) کو اس اعلان کا حکم اس وقت ملا تھا جب دنیا نہ تار سے واقف تھی نہ ٹیلیفوں سے نہ مائیکروفون سے نہ لاؤڈ اسپیکر سے۔ لیکن ابراہیم (علیہ السلام) نے خدا معلوم کس لاہوتی اسٹیشن سے اور کس ملکوتی میٹر پر اس پیام کو نشر کیا کہ روئے زمین کے ہر براعظم کے ایک ایک گوشہ میں سمندر کے ایک ایک جزیرہ میں یہ آواز پہنچ گئی اور ہزاروں برس گزر چکے کہ خلقت آج تک اس بےآب وگیاہ سرزمین کی طرف کھینچی چلی آتی ہے۔ (ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی) مفسرین نے ذکر کیا ہے کہ جب یہ حکم ملا ہے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے پروردگار میری آواز کون سب کے کانوں تک پہنچائے گا ؟ جواب ملا کہ ہم !۔۔ اتنا بلیغ، مؤثر، سچا جواب مخلوق کی زبان سے نکل ہی نہیں سکتا تھا۔ خالق ہی کے لیے ممکن تھا۔ (آیت) ” یاتوک رجالا وعلی کل ضامر “۔ مطلب یہ ہوا کہ سفر حج پیدل بھی اور سواری پر بھی دونوں طرح جائز ہے۔ یقتضی اباحۃ الحج ما شیئا وراکبا ولادلالۃ فیہ علی الافضل منھا (جصاص)
Top