Tafseer-e-Majidi - Al-Muminoon : 60
وَ الَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُؤْتُوْنَ : دیتے ہیں مَآ اٰتَوْا : جو وہ دیتے ہیں وَّقُلُوْبُهُمْ : اور ان کے دل وَجِلَةٌ : ڈرتے ہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ اِلٰى : طرف رَبِّهِمْ : اپنا رب رٰجِعُوْنَ : لوٹنے والے
اور جو لوگ دیتے رہتے ہیں جو کچھ دیتے رہتے ہیں اور ان کے دل اس سے ڈرتے رہتے ہیں کہ انہیں پروردگار کے پاس واپس جانا ہے،53۔
53۔ (تودیکھئے کہ ہمارے اعمال خیرقبول بھی ٹھہرتے ہیں یا نہیں) (آیت) ” الذین ...... مشفقون “۔ خدائے نادیدہ سے ڈرتے رہتے ہیں، اور اس لئے اس کی معصیت ونافرمانی سے بھی بچتے رہتے ہیں۔ خوف الہی پر حاشیہ ابھی گزر چکا ہے۔ ملاحطہ ہو حاشیہ نمبر 49 (آیت) ” الذین ........ یشرکون “۔ مشرکین عرب کا اصلی مرض یہی تھا کہ اقرار الوہیت کے ساتھ ساتھ شرک بھی کئے جاتے تھے ...... تنہا وجود باری کا اقرار شریعت میں اسی لئے مستند اور کافی نہیں۔ جب تک کہ نفی شرک بھی ساتھ ہی ساتھ نہ ہو۔ (آیت) ” یؤتون مااتوا “۔ ان کی یہ عطا و بخشش دین کی راہ میں، احکام الہی کے ماتحت ہوتی رہتی ہے۔ عارفین نے کہا ہے کہ سالک کو اپنے اعمال اور اپنے نفس پر کبھی مطمئن نہ ہونا چاہیے۔
Top