Tafseer-e-Majidi - Al-Furqaan : 36
فَقُلْنَا اذْهَبَاۤ اِلَى الْقَوْمِ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا١ؕ فَدَمَّرْنٰهُمْ تَدْمِیْرًاؕ
فَقُلْنَا : پس ہم نے کہا اذْهَبَآ : تم دونوں جاؤ اِلَى الْقَوْمِ : قوم کی طرف الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا : جنہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَدَمَّرْنٰهُمْ : تو ہم نے تباہ کردیا انہیں تَدْمِيْرًا : بری طرح ہلاک
اور پھر ہم نے کہا کہ دونوں آدمی ان لوگوں کے پاس جاؤ جنہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا ہے سو ہم نے انہیں بالکل ہی ہلاک کردیا،39۔
39۔ (چنانچہ قوم فرعون کی غرقابی مشہور واقعہ ہے۔ قرآن میں بھی بار بار اس کا ذکر آچکا ہے) کلمہہمیشہ تأخر زمانی ہی کے لیے نہیں آتا۔ چناچہ یہاں بھی معلوم ہے کہ نزول کتاب (توراۃ) کا واقعہ مخاطبہ قوم فرعون سے قبل کا نہیں بہت بعد کا ہے۔ (آیت) ” اذھبا “۔ کا عطف قبل والی آیت کے ” جعلنا “۔ پر ہے اور جعل اور قول دونوں کے ماتحت واقعات کا وقوع ایتاء کتاب کے قبل کا ہے۔ فقولہ فقلنا اذھبا معطوف علی جعلنا وکل من الجعل والقول کان قبل ایتاء الکتب (جمل) (آیت) ” الکتب “۔ سے مراد توریت کا ہونا بالکل ظاہر ہے۔ (آیت) ” بایتنا “۔ ایتنا میں دلائل سے مراد یا تو دلائل عقلیہ ہیں اور ظاہر ہے کہ بعد سمجھ جانے ان دلائل کے توحید کا انکار ضرور قابل زجر ہے۔ اور یا مراد دلائل نقلیہ ہیں جو انبیاء سابقین سے منقول ہوتے ہوئے ان لوگوں تک پہنچے ہوں گے ان کے انکار کا مذموم ہونا ظاہر ہی ہے “۔ (تھانوی (رح) یہ بھی ممکن ہے کہ ایک طرف احکام وشرائع مراد ہوں اور دوسری طرف خوارق ومعجزات۔ (آیت) ” وزیرا “۔ یہیں سے یہ مسئلہ صاف ہوگیا کہ وزارت نبوت کے منافی نہیں۔ والوزارۃ لاتنافی النبوۃ فقد کان فی الزمان الواحد انبیاء یوزر بعضھم بعضا (بحر) (آیت) ” فدمرنھم تد میرا “۔ تدمیر اہلاک کی شدید ترین شکل کا نام ہے۔ یعنی انہیں بالکل چور چور ریزہ ریزہ ہی کرڈالا۔ والتدمیر اشد الاھلاک واصلہ کسر الشیء علی وجہ لایمکن اصلاحہ (بحر)
Top