Tafseer-e-Majidi - Al-Furqaan : 72
وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ١ۙ وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو لَا يَشْهَدُوْنَ : گواہی نہیں دیتے الزُّوْرَ : جھوٹ وَاِذَا : اور جب مَرُّوْا : وہ گزریں بِاللَّغْوِ : بیہودہ سے مَرُّوْا : گزرتے ہیں كِرَامًا : بزرگانہ
اور وہ لوگ ایسے ہیں کہ بیہودہ باتوں میں شامل نہیں ہوتے اور جب وہ لغو مشغلوں کے پاس سے گزرتے ہیں تو شرافت کے ساتھ گزر جاتے ہیں،85۔
85۔ یعنی نظریں نیچی کیے ہوئے سلامت روی کے ساتھ ان بیہودگیوں سے گزر جاتے ہیں نہ ان لایعنی مشاغل کی طرف مشغول ہوتے ہیں، نہ عاصیوں کی تحقیر کرکے اپنا کبر ظاہر کرتے ہیں۔ (آیت) ” الزور “۔ زور کے معنی کذب اور میل عن الحق کے ہیں، (راغب) یشھدون الزور سے مراد لی گئی ہے ناجائز مجمع میں حاضری۔ اے حضور مواضع الکذب (کبیر) ویحتمل کل موضع یجری فیہ مالا ینبغی (کبیر) اور اس کے تحت میں مشرکوں کے جشن اور فاسقوں کے جلسے سب داخل ہیں۔ یدخل فیہ اعیاد المشرکین ومجامع الفساق (کبیر) عن عکرمۃ لعب کان فی الجاھلیۃ یسمی بالزور (قرطبی) ہمارے زمانہ کے میلے ٹھیلے، مختلف ” بازیوں “ کے جمگھٹے، ناچ رنگ کی محفلیں، تھیڑ، سینما وغیرہ سب اس کے تحت میں داخل ہیں۔ دوسرے معنی جھوٹی گواہی دینے کے بھی کیے گئے ہیں۔ الزور یحتمل ان منہ الشھادۃ الباطلۃ (کبیر) اے انھم لایشھدون شھادۃ الزور (کبیر) اور ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ مراد مجالس زور ہیں، جن میں اللہ و رسول سے متعلق باتیں گڑھ گڑھ کر بیان کی جاتی ہیں۔ المراد مجالس الزور التی یقولون فیھا الزور علی اللہ تعالیٰ ورسولہ (کبیر) اور کوئی جھوٹی گواہی اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی کہ شرک کی گواہی دی جائے، امام رازی (رح) نے یہ سب معانی بیان کرکے لکھا ہے کہ درست یہ سب ہوسکتے ہیں۔ البتہ زور کا استعمال کذب کے معنی میں اکثر ہوتا ہے۔ کل ھذہ الوجوہ محتملۃ ولکن استعمالہ فی الکذب اکثر (کبیر) (آیت) ” واذا مروا “۔ یعنی جب کبھی اتفاقی طور پر ادھر ان کا گزر ہوتا ہے۔ (آیت) ” باللغو ‘۔ لغو عملی یا زبانی ہر وہ لایعنی مسئلہ ہے جو بچنے کے قابل ہوتا ہے۔ گانے، تماشے خاص طور پر اس کے مفہوم میں داخل ہیں۔ اے بما ینبغی ان یلقی ویطرح ممالاخیر فیہ (روح) وھو کل مسقط من قول اوفعل فیدخل فیہ الغناء واللھو وغیر ذلک مما قاربہ (قرطبی) لغو کے لیے ملاحظہ ہو پ 18 حاشیہ نمبر 3
Top