Tafseer-e-Majidi - Ash-Shu'araa : 129
وَ تَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَۚ
وَتَتَّخِذُوْنَ : اور تم بناتے ہو مَصَانِعَ : مضبوط۔ شاندار محل) لَعَلَّكُمْ : شاید تم تَخْلُدُوْنَ : تم ہمیشہ رہو گے
اور بڑے بڑے محل بناتے ہو جیسے تمہیں ہمیشہ ہی رہنا ہے،78۔
78۔ یہ قدیم شائستہ ومتمدن قوم بڑی صناع وکاریگر تھی، خصوصا انجینئری اور فن تعمیرات کی ماہر۔ ملاحظہ ہوں پ 8 سورة الاعراف کے حاشیے۔ مفسر تھانوی (رح) نے یہ خوب لکھا ہے کہ اس سورة میں مختلف انبیاء کی دعوت میں بار بار انہی فقروں کی تکرار اس لیے ہے کہ ایک ہی طرز تبلیغ سب کا تھا۔ (آیت) ” تعبثون “۔ سے ظاہر ہے کہ یہ شوق تعمیر کسی ضرورت کی بنا پر نہ تھا۔ محض جذبات فخر ونمائش کی تسکین کے لیے تھا، مرشد تھانوی (رح) نے کہا کہ تعبثون سے عبث (محض فضول) کی مذمت صریح نکلتی ہے، خواہ وہ عبث بہ لحاظ قول ہو یا فعل۔ مرشد تھانوی (رح) نے یہ بھی فرمایا کہ عقیدۃ یہ لوگ ان تعمیرات کے ذریعہ سے خلود کے قائل نہ تھے، مگر ان کا طرز عمل گویا اس قسم کے عقیدہ پر مبنی تھا اس لیے ان کو اسی عقیدہ کا معتقد فرمایا گیا۔ یہیں سے حضرات صوفیہ کے اس تعامل کی توجیہ ہوجاتی ہے کہ کافروں کے سے کام کرنے والوں کو کافر کہہ دیا جاتا ہے۔ اور حدیث میں بھی اس کی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں، فقہاء نے لکھا ہے کہ بلاضرورت بڑی بڑی عمارتیں نام کے لیے تعمیر کرانا سرتاسر داخل اسراف ہے۔
Top