Tafseer-e-Majidi - An-Naml : 91
اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِیْ حَرَّمَهَا وَ لَهٗ كُلُّ شَیْءٍ١٘ وَّ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَۙ
اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اُمِرْتُ : مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَعْبُدَ : عبادت کروں رَبَّ : رب هٰذِهِ : اس الْبَلْدَةِ : شہر الَّذِيْ : وہ جسے حَرَّمَهَا : اس نے محترم بنایا ہے وَلَهٗ : اور اسی کے لیے كُلُّ شَيْءٍ : ہر شے وَّاُمِرْتُ : اور مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَكُوْنَ : میں رہو مِنَ : سے الْمُسْلِمِيْنَ : جمع مسلم۔ مسلمان۔ فرمانبردار
مجھے تو یہی حکم ملا ہے کہ میں عبادت کروں اس شہر کے مالک (حقیقی) کی جس نے اسے محترم بنایا ہے اور سب چیزیں اسی کی مالک ہیں اور مجھے حکم ملا ہے کہ میں فرمانبردار رہوں،103۔
103۔ (جیسا کہ اب تک بھی رہا ہوں عقائد و اعمال دونوں میں) عبادت وتعمیل احکام سے جب سرور انبیاء مستثنی نہیں تو ظاہر ہے کسی ولی، کسی بزرگ کا کیا ذکر ہے۔ (آیت) ” ھذہ البلدۃ “۔ یعنی شہر مکہ، اللہ مالک تو سب ہی شہروں، ملکوں کا ہے۔ مکہ کی تخصیص سے مقصود مکہ کے مرتبہ کا شرف و اعزاز ہے۔ (آیت) ” ولہ کل شیء “۔ یعنی ہر چیز جب اسی کی ملک ہے، تو وہ جس کو بھی چاہے محترم ومتبرک ٹھہرادے۔
Top