Tafseer-e-Majidi - Al-Qasas : 16
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْ لِیْ فَغَفَرَ لَهٗ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
قَالَ : اس نے عرض کیا رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ : بیشک میں ظَلَمْتُ : میں نے ظلم کیا نَفْسِيْ : اپنی جان فَاغْفِرْ لِيْ : پس بخشدے مجھے فَغَفَرَ : تو اس نے بخشدیا لَهٗ : اس کو اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہی الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : نہایت مہربان
عرض کیا اے میرے پروردگار مجھ سے قصور ہوگیا،21۔ سو تو بخش دے پھر (اللہ نے) انہیں بخش دیا، بیشک وہ تو ہی ہے بڑا بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا
21۔ (اور جو نتیجہ میں نہیں چاہتا تھا وہ نکل آیا) (آیت) ” ظلمت نفسی “۔ حضرت کا اپنی زبان سے یہ ادا کرنا ہرگز اثبات جرم کے مرادف نہیں۔ یہ تو کاملین کی عام عادت ہی ہوتی ہے کہ اپنی خفیف سی بےاحتیاطی کو بھی گویا خطا ولغزش کا ایک پہاڑ بنا کر پیش کرتے ہیں انما عدہ من عمل الشیطان وسماہ ظلما واستغفر منہ علی عادتھم فی استعظام محقرات فرطت منھم (بیضاوی) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تو محض رفع ظلم چاہا تھا، قتل بلاقصد واقع ہوگیا۔ آپ کو بعد تامل معلوم ہوا کہ رفع ظلم دوسرے طریق سے بھی ممکن تھا جو قصد کے وقت سمجھ میں نہ آیا بس اس لیے آپ نے استغفار فرمایا، اس سے چند مسئلے ثابت ہوئے۔ ایک یہ کہ کاملین سے بھی بعض طبعیات مثلا غضب کا صدور ہوتا رہتا ہے۔ دوسرے حسنات الابرار سیئات المقربین اور یہاں وہ حسنہ دفع ظلم تھا تیسرے یہ کہ کا ملین کو خشیت دوسروں سے کہیں زائد ہوتی ہے۔
Top