Tafseer-e-Majidi - Al-Qasas : 18
فَاَصْبَحَ فِی الْمَدِیْنَةِ خَآئِفًا یَّتَرَقَّبُ فَاِذَا الَّذِی اسْتَنْصَرَهٗ بِالْاَمْسِ یَسْتَصْرِخُهٗ١ؕ قَالَ لَهٗ مُوْسٰۤى اِنَّكَ لَغَوِیٌّ مُّبِیْنٌ
فَاَصْبَحَ : پس صبح ہوئی اس کی فِي الْمَدِيْنَةِ : شہر میں خَآئِفًا : ڈرتا ہوا يَّتَرَقَّبُ : انتظار کرتا ہوا فَاِذَا الَّذِي : تو ناگہاں وہ جس اسْتَنْصَرَهٗ : اس نے مددمانگی تھی اس سے بِالْاَمْسِ : کل يَسْتَصْرِخُهٗ : وہ (پھر) اس سے فریاد کر رہا ہے قَالَ : کہا لَهٗ : اس کو مُوْسٰٓى : موسیٰ اِنَّكَ : بیشک تو لَغَوِيٌّ : البتہ گمراہ مُّبِيْنٌ : کھلا
پھر (موسی (علیہ السلام) کو) شہر میں صبح ہوئی خوف واندیشہ کی حالت میں کہ اتنے میں وہی جس نے کل ان سے مدد چاہی تھی،23۔ (آج پھر) اسے پکار رہا ہے (موسی (علیہ السلام) نے) اس سے کہا تو بھی بڑا ہی بد راہ ہے،24۔
23۔ (اور اس وقت کسی اور سے الجھ رہا تھا) (آیت) ” یترقب “۔ یعنی آپ کو برابر یہ دھڑکا لگا ہوا تھا کہ کہیں مصری پولیس گرفتار کرنے نہ آرہی ہو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس وقت تک نبی نہیں ہوئے تھے لیکن اگر ہوتے بھی تو طبعی خوف واندیشہ کسی بھی مرتبہ کمال کے منافی نہیں۔ (آیت) ” خآئفایترقب “۔ فقہاء مفسرین نے لکھا ہے کہ جو لوگ مطلقا غیر اللہ کے خوف کو ناجائز بتاتے ہیں۔ یہ آیت ان کے خیال کی بالکل تردید کررہی ہے۔ فیہ دلیل علی انہ لاباس بالخوف من دون اللہ بخلاف مایقولہ بعض الناس انہ لایسوغ الخوف من دون اللہ (مدارک) 24۔ (کہ روز ہی لوگوں سے الجھتا رہتا ہے) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کل کی بات یاد آگئی۔ اسی پر آپ کو ناخوشی پیدا ہوئی۔ توریت میں ہے :۔” اور جب وہ دوسرے دن باہر گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ دو عبرانی آپس میں جھگڑ رہے ہیں، تب اس نے اس کو جو ناحق پر تھا کہا کہ تو اپنے یار کو کیوں مارتا ہے ؟ “ (خروج۔ 2: 13)
Top