Tafseer-e-Majidi - Al-Qasas : 78
قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ عِنْدِیْ١ؕ اَوَ لَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَّ اَكْثَرُ جَمْعًا١ؕ وَ لَا یُسْئَلُ عَنْ ذُنُوْبِهِمُ الْمُجْرِمُوْنَ
قَالَ : کہنے لگا اِنَّمَآ : یہ تو اُوْتِيْتُهٗ : مجھے دیا گیا ہے عَلٰي عِلْمٍ : ایک علم (ہنر) سے عِنْدِيْ : میرے پاس اَوَ : کیا لَمْ يَعْلَمْ : وہ نہیں جانتا اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ قَدْ اَهْلَكَ : بلاشبہ ہلاک کردیا مِنْ قَبْلِهٖ : اس سے قبل مِنَ : سے (کتنی) الْقُرُوْنِ : جماعتیں مَنْ : جو هُوَ اَشَدُّ : وہ زیادہ سخت مِنْهُ : اس سے جو قُوَّةً : قوت میں وَّاَكْثَرُ : اور زیادہ جَمْعًا : جمعیت وَلَا يُسْئَلُ : اور نہ سوال کیا جائے گا عَنْ : سے (بابت) ذُنُوْبِهِمُ : ان کے گناہ الْمُجْرِمُوْنَ : (جمع) مجرم
اس نے کہا مجھ کو تو یہ سب میری ہنر مندی سے ملا ہے،102۔ کیا اسے یہ خبر نہ تھی کہ اللہ اس کے قبل کی امتوں میں ایسوں کو ہلاک کرچکا ہے جو قوت میں بھی اس سے بڑھے ہوئے تھے اور مجمع بھی (ان کا) زیادہ تھا،103۔ اور مجرموں سے ان کے گناہوں کی بابت سوال نہیں کرنا پڑتا،104۔
102۔ (اس میں کسی کے احسان کی کیا بات اور اس میں کسی کا استحقاق کیسا ؟ ) ” روشن خیال “ قارون نے جواب دیا کہ جو کیا دقیانوسیوں کی سی باتیں ہیں۔ میں مالیات ومعاشیات کا ماہر ہوں۔ مجھے جو کچھ بھی ملا ہے، یہ میں نے اپنی قوت بازو سے، اپنے علم وہنر کے زور سے کمایا ہے۔ نہ میرے اوپر کوئی احسان غیبی، نہ میری کمائی میں دوسروں کا حق۔ علی علم، قیل علم التجارۃ والا متعۃ وسائر المکاسب (بیضاوی) عارفین نے کہا ہے کہ علم وفضل، فن وہنر کو اپنی جانب منسوب کرنا، اپناذاتی کمال سمجھنا اور اسے اللہ کا عطیہ نہ جاننا بھی اصل جڑ ہے مغضوبیت ومخذولیت کی، مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اسی طرح طریقت میں بھی ثمرات کو بجائے فضل وانعام خداوندی کے اپنی سعی و مجاہدہ کی جانب منسوب کرنا مذموم ہے۔ 103۔ قارون کی حماقت وکج فہمی کا بیان ہورہا ہے۔ اس کے اتنی عقل نہ آئی کہ اگر دولتمندی، ہنر مندی اور فن دانی ہی کا نتیجہ ہوتی تو پرانے بڑے بڑے سرمایہ دار اور ساہوکار اپنے کو تباہ ہی کیوں ہونے دیتے، اپنے کو ہمیشہ بربادی سے بچائے ہی کیوں نہ رکھتے ؟ 104۔ یعنی ان جرائم کی تحقیقات سے متعلق کہ وہ تو خدا کو معلوم ہی رہتے ہیں۔ کسی پوچھ پاچھ کی ضرورت نہیں۔ ہاں اس کی ضرورت نہیں۔ ہاں اس کی رسوائی وتفضیح کے لیے اور اس پر مزید حجت قائم کرنے کی غرض سے سوالات کئے جائیں تو اور بات ہے۔
Top