Tafseer-e-Majidi - Al-Qasas : 79
فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ فِیْ زِیْنَتِهٖ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ قَارُوْنُ١ۙ اِنَّهٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ
فَخَرَجَ : پھر وہ نکلا عَلٰي : پر (سامنے) قَوْمِهٖ : اپنی قوم فِيْ : میں (ساتھ) زِيْنَتِهٖ : اپنی زیب و زینت قَالَ : کہا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُرِيْدُوْنَ : چاہتے تھے الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی يٰلَيْتَ : اے کاش لَنَا مِثْلَ : ہمارے پاس ہوتا ایسا مَآ اُوْتِيَ : جو دیا گیا قَارُوْنُ : قارون اِنَّهٗ : بیشک وہ لَذُوْ حَظٍّ : نصیب والا عَظِيْمٍ : بڑا
پھر وہ اپنے قوم والوں کے سامنے اپنے (تجمل و) آرائش کے ساتھ نکلا، جو لوگ دنیوی زندگی کے طالب تھے،105۔ بولے کاش ہم کو بھی ویسا ہی (سازوسامان) ملا ہوتا جیسا قارون کو ملا ہے بیشک وہ بڑا خوش نصیب ہے،106۔
105۔ یعنی ان کے اوپر محبت اسی دنیا اور اس کی مادی زیب وزینت کی غالب تھی۔ (آیت) ” یریدون الحیوۃ الدنیا “۔ یعنی اسی زندگی کے زیب وزینت کو اپنا مقصد وجود بنائے ہوئے اور اپنا اصلی مطمح نظر قرار دیئے ہوئے تھے۔ 106۔ دوسروں کے ظاہری سازوسامان یا ٹیپ ٹاپ پر پھسل پڑنا فطرت بشری میں ہمیشہ سے داخل رہا ہے۔ یہاں اہل ایمان بنی اسرائیل کی زبان پر اس کلمہ رشک کا آنا۔ اسی فطرت بشری کا ظہور تھا (آیت) ” یلیت ..... قارون “۔ یہ تمنا حرص کی بنا پر تھی۔ اس سے کافر ہونا لازم نہیں آتا۔ جیسا اب بھی بعضے آدمی باوجود مسلمان یہود میں مریدین کی ایک بڑی جماعت کا ذکر ہے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ (آیت) ” وقال الذین اوتوالعلم “۔ کے مقابلہ میں یہ (آیت) ” وقال الذین یریدون الحیوۃ الدنیا “۔ اس پر دال ہے کہ علم متعبر وہ ہے جس سے دنیا مقصود نہ ہو۔
Top