Tafseer-e-Majidi - Al-Qasas : 80
وَ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْلَكُمْ ثَوَابُ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا١ۚ وَ لَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہیں اُوْتُوا الْعِلْمَ : دیا گیا تھا علم وَيْلَكُمْ : افسوس تم پر ثَوَابُ اللّٰهِ : اللہ کا ثواب خَيْرٌ : بہتر لِّمَنْ : اس کے لیے جو اٰمَنَ : ایمان لایا وَ : اور عَمِلَ : اس نے عمل کیا صَالِحًا : اچھا وَلَا يُلَقّٰىهَآ : اور وہ نصیب نہیں ہوتا اِلَّا : سوائے الصّٰبِرُوْنَ : صبر کرنے والے
اور جن لوگوں کو (دین کی) فہم عطا ہوئی تھی وہ بولے تمہارے اوپر نیکی پڑے اللہ (کے ہاں) کا ثواب کہیں بہتر ہے جو ایسے شخص کو ملتا ہے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے اور وہ تو صرف صبر کرنے والوں ہی کو ملتا ہے،107۔
107۔ اسرائیلیوں میں جو صاحب فہم وتقوی تھے انہوں نے اپنی قوم والوں کو سمجھایا کہ اس دنیوی ٹیپ ٹاپ میں کیا رکھا ہے، اصل شے تو خدا کے ہاں کا اجر ہے اور وہ مشروط ہے ایمان وطاعت کے ساتھ اور اجر میں بھی درجہ کامل کا مستحق وہی ہوتا ہے جو اپنے نفس کو دنیوی حرص وطمع سے روکے رہے۔ (آیت) ” ویلکم “۔ سے مقصود یہاں بددعا نہیں۔ عربی محاورہ میں ترحم یا تنبیہ کے موقع پر بھی آتا ہے اور وہی یہاں مراد ہے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ (آیت) ” ولا یلقھا الا الصبرون “ دال ہے مطلوبیت مجاہدہ پر۔
Top