Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 121
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
وَاِذْ : اور جب غَدَوْتَ : آپ صبح سویرے مِنْ : سے اَھْلِكَ : اپنے گھر تُبَوِّئُ : بٹھانے لگے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مَقَاعِدَ : ٹھکانے لِلْقِتَالِ : جنگ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور وہ وقت یاد کیجئے جب آپ صبح کو اپنے گھر والوں (کے پاس) سے نکلے مسلمانوں کو قتال کے لیے مناسب مقامات پر لے جاتے ہوئے،249 ۔ اور اللہ بڑا سننے والا ہے بڑا جاننے والا ہے،250 ۔
249 ۔ (دامن جبل احد کی طرف) اب ذکر جنگ احد کا شروع ہورہا ہے۔ احد مدینہ منورہ سے شمال کی جانب ڈھائی تین میل کے فاصلہ پر ایک پہاڑی ہے۔ بدر میں شکست کھائے ہوئے مشرکین مکہ جوش انتقام سے دیوانہ ہورہے تھے۔ ہجرت کا تیسرا سال قریب ختم کے تھا۔ اور واقعہ بدر پر ایک سال گزر چکا تھا، مکہ والوں کی تیاریاں مکمل ہوگئیں۔ اب کی تیاریاں بڑے انتظام واہتمام کے ساتھ اور بہت بڑے پیمانہ پر ہوئی تھیں۔ قریش کی جمعیت 3 ہزار کی تھی، ان میں 700 جوان زرہ پوش تھے، 200 سوار اور باقی شترسوار تھے، قوم اور قبیلہ کے بڑے بڑے سردار سب ساتھ ہوئے، بڑی بات یہ کہ عورتیں بھی شریک جنگ ہوئیں۔ ہاتھوں میں باجے لیے ہوئے، بڑی برجوش نظمیں پڑھتی جاتی تھیں اور مقتولین بدر کے انتقام پر اپنے عزیزوں، قریبوں کو خوب ابھارتی جاتی تھیں، جنگ میں عورتوں کی شرکت آج بیسویں صدی کی ” جدت “ نہیں، جاہلی مشرک قوموں کا پرانا شعار ہے، اسلامی فوج اس کے مقابلہ میں کل ایک ہزار تھی اور سامان کی کیفیت یہ تھی کہ علاوہ رسول اللہ ﷺ کی سواری مبارک فوج بھر میں صرف ایک گھوڑا اور تھا۔ اس سے بڑھ کر ستم یہ ہوا کہ صبح سویرے عین اس وقت جب غنیم سامنے نظر آیا اور مسلمان اپنے مقدس جامیر الجیش کے ساتھ ابھی نماز ہی میں مشغول تھے، عبداللہ بن ابی مدینہ کا پرانا اور ذی اثر لیڈر یہ عذر کرکے کہ جب ہماری رائے نہیں سنی جاتی اور شہر کے اندر ہی محصور ہو کر نہیں لڑا جاتا تو ہم بیکار اپنی جانیں دوسرے کے کہنے پر کیوں دیں اپنے 300 ساتھیوں کو لے کر شہر کو واپس چلا گیا، لشکر اسلام کی کل جمعیت 700 کی رہ گئی، ان میں بھی زرہ پوش کل 100 ۔ مقابل فوج تعداد میں چوگنی سے زائد۔ اور سازوسامان کے لحاظ سے بھی کہیں زیادہ آراستہ ! (آیت) ” واذ غدوت من اھلک “ میں من۔ (آیت) ” عند “۔ کے معنی میں ہے اور آنحضرت ﷺ اس وقت حضرت عائشہ ؓ کے حجرہ سے برآمد ہوئے تھے۔ کان الخروج من حجرۃ عائشۃ (روح) یعنی خرجت بالصباح من منزلک من عند عائشۃ (قرطبی) (آیت) ” مقاعد للقتال “۔ ترتیب صفوف اور مورچوں کی تناسب موضعیت کی اہمیت جس طرح سکندر ودارا کے زمانہ میں تھی، جدید فن حرب میں بھی بالکل مسلم، اور ملٹری سائنس کی کتابوں میں ” پوزیشن “ Position کی اہمیت کی تشریح میں صفحہ کے صفحہ وقف رہتے ہیں، امت کا رہبر کامل، مقدس نبی ہونے کے علاوہ سپہ داراعظم کی حیثیت سے بھی بےنظیر تھا۔ (Tom andre) نامی بیسویں صدی کا ایک مسیحی مؤرخ عرب ہے، وہ اپنی سوانح محمد ﷺ میں آپ ﷺ کے اس کمال خصوصی کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے ” برخلاف اپنے مخالفین کے جو محض ہمت و شجاعت ہی رکھتے تھے۔۔۔ محمد ﷺ نے کہنا چاہیے کہ فن حرب کی بھی نئی راہ نکالی۔ مکہ والوں کی بےدھڑک اور اندھا دھند جیوٹ کے مقابلہ میں محمد ﷺ نے خوب دوراندیشی اور سخت قسم کے نظم وانضباط سے کام لیا “۔ (صفحہ 203) (ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی) مولانا شبلی مرحوم نے الفاظ کے ذریعہ سے گویا پورا معرکہ احد کا کھینچ دیا ہے :۔ آنحضرت ﷺ نے احد کو پشت پر رکھ کر صف آرائی کی، مصعب بن عمیر کو علم عنایت کیا، زبیر ؓ بن عوام رسالہ کے افسر مقرر ہوئے، حضرت حمزہ ؓ کو اس حصہ فوج کی کمان ملی جو زرہ پوش نہ تھے، پشت کی طرف احتمال تھا کہ دشمن ادھر سے آئیں، اس لیے پچاس تیر اندازوں کا دستہ متعین فرمایا، اور حکم دیا کہ گو لڑائی فتح ہوجائے، تاہم وہ جگہ سے نہ ہٹیں، عبداللہ بن جبیران تیر اندازوں کے افسر مقرر ہوئے، قریش کو بدر میں تجربہ ہوچکا تھا اس لیے انہوں نے نہایت ترتیب سے صف آرائی کی میمنہ پر خالد بن ولید کو مقرر کیا، میسرہ عکرمہ کو دیا جو ابوجہل کے فرزند تھے، سواروں کا دستہ صفوان بن امیہ کی کمان میں تھا، جو قریش کا مشہور رئیس تھا، تیراندازوں کے دستے الگ تھے، جن کا افسر عبداللہ بن ابی ربیعہ تھا، طلحہ علمبردار تھا، اور سوگھوڑے کو تل رکاب میں تھے کہ ضرورت کے وقت کام آئیں (سیرۃ النبی جلد 1 صفحہ 273 طبع اول) 250 ۔ (آیت) ” سمیع علیم “۔ سمع وعلم کی صفات کو یاد دلا کر اس طرف اشارہ کردیا کہ اس وقت مخالفین وموافقین جو کچھ اپنی اپنی جگہ پر کہہ سن رہے ہیں، وہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں آچکا، اور اس موقع پر مخالفین وموافقین دونوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا، اس میں سے کوئی شے اس سے مخفی نہ رہی۔
Top