Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 130
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَاْ كُلُوا : نہ کھاؤ الرِّبٰٓوا : سود اَضْعَافًا : دوگنا مُّضٰعَفَةً : دوگنا ہوا (چوگنا) وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو سود کئی کئی حصہ بڑھا کر نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاجاؤ،263 ۔
263 ۔ (آیت) ” واتقوا اللہ لعلکم تفلحون “ ، تقوی اور فلاح میں یہ لزوم بتاکرگویا اس حقیقت کا اظہار کردیا کہ فلاح و کامیابی یا دنیا میں عافیت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا راز، احکام تقوی پر عمل کرنے میں ہے۔ (آیت) ” لعلکم۔ لعل “۔ کے لفظی معنی ” عجب نہیں “۔ کے ہیں۔ لیکن اوپر گزر چکا ہے کہ (آیت) ” لعل “۔ جب وعدۂ الہی کے بیان میں آتا ہے تو اس کے مفہوم میں بجائے شک وتردد کے یقین پیدا ہوجاتا ہے۔ اور ترجمہ ” تاکہ “ سے صحیح ہوتا ہے۔ قال اھل التفسیران لعل وعسی من اللہ للتحقیق (مدارک) (آیت) ” لا تاکلوا الربوا “۔ یعنی سودی کاروبار، لین دین کو بالکل حرام سمجھو، حرمت سود پر حاشیے پارۂ سوم میں ختم سورة بقر کے قریب گزر چکے۔ (آیت) ” اضعافا مضعفۃ “۔ سود کم بخت کی خاصیت ہی یہ ہے کہ جو مفلس ہیں وہ مفلس تر اور جو امیر ہیں وہ امیر تر ہوتے جاتے ہیں۔ آیت میں سود کے اسی دوگنے چوگنے ہوجانے والے وصف کی طرف اشارہ ہے، یہ مراد نہیں کہ سود مرکب نہ لو اور سود مفرد لے سکتے ہو، متکلمین نے کہا ہے کہ آیت سے فرقہ مرجۃ کا رد نکل رہا ہے، جن کا عقیدہ یہ تھا کہ ایمان کے بعد کوئی معصیت کفر نہیں، اور نہ مومن کے لیے کسی حال میں دوزک کا عزاب ہے، فیہ رد علی المرجءۃ فی قولھم لا یضر مع الایمان ذنب ولا یعذب بالنار اصلا (مدارک)
Top