Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 155
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ١ۙ اِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوْا١ۚ وَ لَقَدْ عَفَا اللّٰهُ عَنْهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۠   ۧ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ تَوَلَّوْا : پیٹھ پھیریں گے مِنْكُمْ : تم میں سے يَوْمَ : دن الْتَقَى الْجَمْعٰنِ : آمنے سامنے ہوئیں دو جماعتیں اِنَّمَا : درحقیقت اسْتَزَلَّھُمُ : ان کو پھسلا دیا الشَّيْطٰنُ : شیطان بِبَعْضِ : بعض کی وجہ سے مَا كَسَبُوْا : جو انہوں نے کمایا (اعمال) وَلَقَدْ عَفَا : اور البتہ معاف کردیا اللّٰهُ : اللہ عَنْھُمْ : ان سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : حلم ولا
یقیناً تم میں سے جو لوگ اس دن پھرگئے تھے جس دن کہ دونوں جماعتیں باہم مقابل ہوئی تھیں،312 ۔ تو یہ تو بس اس سبب سے ہوا کہ شیطان نے انہیں ان کے بعض کرتوتوں کے سبب لغزش دے دی تھی،313 ۔ اور بیشک اللہ انہیں معاف کرچکا ہے،314 ۔ یقیناً اللہ بڑا مغفرت والا ہے، بڑا حلم والا ہے،315 ۔
312 ۔ (میدان احد میں) (آیت) ” ان الذین تولوا “۔ مراد وہی صحابی ہیں جن سے احد کے موقع پر کمزوری کا اظہار ہوا تھا۔ انہی کی تسکین و تسلی کے لیے نیز آئندہ کی نتبیہ وہدایت کی غرض سے یہ آیتیں نازل ہوئی ہیں۔ 313 ۔ اس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ آگیا کہ ہر پچھلا گناہ سبب بن جاتا ہے مزید وجدید معصیت کا، یہاں مراد ہے حب حیات اور مال غنیمت کی ہوس۔ وقال بعض العلماء حبھم الغنیمۃ والحرص علی الحیاۃ (بحر) معنی السببیۃ الجرارھا الیہ لان الذنب یجر الذنب کما ان الطاعۃ تجر الطاعۃ (روح) (آیت) ” انما استزلھم الشیطن “ اس میں اس ادب کی تعلیم آگئی کہ گناہ جو بھی سرزد ہوجائے اس کی نسبت حق تعالیٰ کی جانب نہیں بلکہ شیطان کی جانب دینا چاہیے، قال الکعبی الایۃ تدل علی ان المعاصی لاتنسب الی اللہ فانہ تعالیٰ نسبھا فی ھذہ الایۃ الی الشیطان (کبیر) فالاضافۃ الی الشیطان لطف وتغریب والتعلیل بکسبھم وعظ وتادیب (مدارک) خود کلام مجید میں بھی دوسری آیتیں اس قسم کی ہیں مثلا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے (آیت) ” ھذا من عمل الشیطن “۔ یا حضرت یوسف کی زبان سے (آیت) ” من بعد ان نزغ الشیطن بینی وبین اخوتی “۔ یا خادم موسیٰ کی زبان سے (آیت) ” وما انسنیہ الا الشیطن “۔ 314 ۔ (ان کے توبہ و استغفار کی بنا پر) یہی مضمون تین آیت قبل بھی بیان ہوچکا ہے۔ (آیت) ” ولقد عفا اللہ عنہم “۔ تکرار سے ان صحابیوں کی مزید تسلی و اطمینان مقصود ہے جو لوگ ان صحابیوں کو اس واقعہ احد کی بنا پر موردطعن سمجھ رہے ہیں وہ صاف آیات قرآنی کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ 315 ۔ یہاں دو صفات باری کا اثبات کیا ہے۔ (آیت) ” غفور “ ایک صفت غفر کا، اس کا ظہور آخرت میں ہوگا۔ (آیت) ” حلیم “۔ دوسرے صفت حلم کا، اس کا ظہور اسی دنیا میں ہوتا رہتا ہے، کہ فورا مؤاخذہ نہیں کرتا بلکہ توبہ و استغفار کا موقع برابر دیتا رہتا ہے۔
Top