Tafseer-e-Mazhari - Yunus : 21
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ١ۙ اِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوْا١ۚ وَ لَقَدْ عَفَا اللّٰهُ عَنْهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۠   ۧ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ تَوَلَّوْا : پیٹھ پھیریں گے مِنْكُمْ : تم میں سے يَوْمَ : دن الْتَقَى الْجَمْعٰنِ : آمنے سامنے ہوئیں دو جماعتیں اِنَّمَا : درحقیقت اسْتَزَلَّھُمُ : ان کو پھسلا دیا الشَّيْطٰنُ : شیطان بِبَعْضِ : بعض کی وجہ سے مَا كَسَبُوْا : جو انہوں نے کمایا (اعمال) وَلَقَدْ عَفَا : اور البتہ معاف کردیا اللّٰهُ : اللہ عَنْھُمْ : ان سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : حلم ولا
جو لوگ تم میں سے (اُحد کے دن) جبکہ (مومنوں اور کافروں کی) دو جماعتیں ایک دوسرے سے گتھ گئیں (جنگ سے) بھاگ گئے تو ان کے بعض افعال کے سبب شیطان نے ان کو پھسلا دیا مگر خدا نے ان کا قصور معاف کر دیا بےشک خدا بخشنے والا اور بردبار ہے
ان الذین تولوا منکم یوم النقی الجمعان جس روز دونوں گروہوں کا یعنی اہل اسلام اور اہل شرک کا مقابلہ ہوا اور تم میں سے اے مسلمانو ! کچھ لوگ شکست کھا کر بھاگ گئے یہ احد کے دن کا واقعہ ہے سوائے تیرہ آدمیوں کے رسول اللہ کے ساتھ کوئی باقی نہیں رہا سب بھاگ گئے اور عبد اللہ بن جبیر کے ساتھ صرف دس آدمی قائم رہے۔ (چالیس آدمی ان کا ساتھ چھوڑ کر چلے گئے ) ۔ انما استزلھم الشیطان بس شیطان نے ڈگمگا دینا چاہا یا شیطان نے ان کے دلوں میں وسوسے ڈال کر لغزش یعنی گناہ پر آمادہ کردیا۔ اَزَلَّ اور اِسْتَزَلََّ کو ہم معنی بھی کہا گیا ہے۔ ببعض ما کسبوا یعنی ان کے گناہوں کی وجہ سے کہ بعض لوگوں نے مرکزکو چھوڑدینے کا مشورہ دیا تھا۔ حسن بصری نے فرمایا : ما کسبوا سے مراد ہے شیطان کے وسوسہ کو مان لینا۔ و لقد عفا اللہ عنھم یقیناً اللہ نے انکو معاف فرما دیا۔ (دوبارہ ذکر تاکیداً ہے ‘ 12) جب مصر والوں نے حضرت عثمان پر نکتہ چینی کی ‘ احد کے دن آپ ؓ کے فرار ہونے کا ذکر کیا اور جنگ بدر اور بیعت رضوان سے غیر حاضر ہونے کا بھی اظہار کیا تو حضرت ابن عمر ؓ نے یہی بات ان کے جواب میں فرمائی۔ فرمایا : میں شہادت دیتا ہوں کہ جنگ احد سے فرار کو تو اللہ نے معاف فرما دیا اور بدر سے غیر حاضری کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ کی صاحبزادی حضرت رقیہ آپ کے عقد میں تھیں اور بیمار تھیں (جن کی وجہ سے با جازت آپ کو رکنا پڑا) اس لیے حضور نے فرما دیا تھا کہ شرکاء بدر کے برابرتم کو ثواب بھی ملے گا اور حصہ بھی۔ رہا بیعت رضوان سے غیر حاضر رہنے کا معاملہ تو وادی مکہ کے اندر اگر حضرت عثمان غنی سے زیادہ کوئی معزز شخص ہوتا تو رسول اللہ اس کو (قریش مکہ کے پاس) بھیج دیتے (لیکن عثمان ہی سب سے زیادہ عزت والے تھے اس لیے) حضور ﷺ نے آپ کو مکہ کو بھیج دیا تھا اور ان کے جانے کے بعد بیعت رضوان ہوئی پس حضور ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : یہ عثمان کا ہاتھ ہے پھر اس کو دوسرے ہاتھ پر خود ہی مارا اور فرمایا : یہ عثمان کی بیعت ہے۔ حضرت ابن عمر نے یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد نکتہ چینی کرنے والے سے فرمایا : اب اس (تفصیل) کو اپنے ساتھ لے جا۔ (رواہ البخاری) لہٰذا جنگ احد سے فرار کرنے کی بنیاد پر کسی صحابی کو مطعون کرنا جائز نہیں۔ اس کے علاوہ یہ امر بھی تو ہے کہ فرار کی ممانعت سے پہلے یہ واقعہ ہوا تھا۔ (اس لیے قابل طعن نہیں ہے کیونکہ ورود حکم سے پہلے عدم تعمیل کوئی جرم نہیں بلکہ قابل تصور ہی نہیں) ۔ اِن اللہ غفور حلیم کوئی شبہ نہیں کہ اللہ بڑی مغفرت اور حلم والا ہے (اس لیے اس نے اہل فرار سے مواخذہ نہیں کیا اور معاف فرما دیا) ۔
Top