Tafseer-e-Majidi - Al-Ahzaab : 30
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ یُّضٰعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ١ؕ وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا
يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ : اے نبی کی بیبیو مَنْ : جو کوئی يَّاْتِ : لائے (مرتکب ہو) مِنْكُنَّ : تم میں سے بِفَاحِشَةٍ : بیہودگی کے ساتھ مُّبَيِّنَةٍ : کھلی يُّضٰعَفْ : بڑھایا جائے گا لَهَا : اس کے لیے الْعَذَابُ : عذاب ضِعْفَيْنِ ۭ : دو چند وَكَانَ : اور ہے ذٰلِكَ : یہ عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ يَسِيْرًا : آسان
اے نبی کی بیویو تم میں سے جو کوئی کھلی ہوئی بیہودگی کرے گی تو اسے دہری سزا دی جائے گی،56۔ اور یہ اللہ کے لئے (بالکل) آسان ہے،57۔
56۔ (آخرت میں) یعنی جتنی دوسرے شخص کو ملتی، اس کی دوگنی سزا۔ (آیت) ” بفاحشۃ مبینۃ “۔ مراد وہ سوء معاشرت ہے جو رسول اللہ ﷺ کے تکدرقلب کا باعث ہو، یا مطلق معصیت صریح مراد لی جائے۔ المراد الفاحشۃ النشوز وسوء الخلق (ابن عباس ؓ اے بمعصیۃ ظاھرۃ (معالم) وینبغی ان تحمل الفاحشۃ علی حقوق الزوج و فساد عشرتہ (بحر) بعض محققین نے یہاں یہ خوب لکھا ہے کہ صفت (آیت) ” مبینۃ “۔ کا اضافہ خود اس کی دلیل ہے کہ یہاں مراد زناکاری ہو نہیں سکتی، جو ایک چوری چھپے کی چیز ہے لامحالہ مراد سوء معاشرت اور عدم ادائے حقوق زوج سے ہوگی، اور اگر مراد زنا کاری ہی لی جائے، جب بھی اس سے مرتبہ ازواج نبی کی منقصت ذرا بھی لازم نہیں آتی۔ اس لیے کہ یہ بات محض بطور فرض فرمائی گئی ہے۔ اور بطور فرض اس سے بھی بڑھ چڑھ کر سخت اور شنیع چیزیں قرآن مجید میں مذکور ہوچکی ہیں۔ اور بعض اہل علم نے تو یہ صراحت کردی ہے کہ لفظ فاحشۃ جب ال کے ساتھ معرفہ ہو کر آئے گا تو اس کے معنی حرام کاری کے ہوں گے اور جب تنوین کے ساتھ صیغہ نکرہ میں آئے گا تو اس کے مفہوم میں ہر قسم کے معصیت داخل ہوگی، اور جب موصوف ہو کر آئے گا (جیسا کہ یہاں صفت (آیت) ” مبینۃ “۔ کے ساتھ ہے) تو مراد سوء معاشرت اور عدم ادائے حقوق زوجیت سے ہوگی۔ وقال قوم الفاحشۃ اذا وردت معرفۃ فھی الزنا واللواط واذا وردت منکرۃ فھی سائر المعاصی واذا وردت منعوتۃ فھی حقوق الزوج و فساد عشرتہ (قرطبی) (آیت) ” یضعف ..... ضعفین “۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ خواص وعلماء پر بمقابلہ عوام امت کے گرفت زیادہ سخت ہوگی اور اسی طرح ان کا اجر وثواب بھی عوام سے کہیں زیادہ ہے۔ لان النعمۃ کلما عظمت کان کفر انھا اعظم فیما یستحق بہ من العقاب اذ کان استحقاق العقاب علی حسب کفران النعمۃ (جصاص) ولذا کان الذم للعاصی العالم الجاھل کو ان المعصیۃ من العالم اقبح (مدارک) وسبب تضعیف العذاب ان الذنب منھن اقبح فان زیادۃ قبحہ تابعۃ لزیادۃ فضل المذنب والنعمۃ علیہ (روح) 57۔ یعنی یہ نہیں کہ اللہ کسی کی وجاہت کی مروت یا دباؤ میں آکر اپنی سزا کے نفاذ میں ترمیم کرنے لگے۔
Top