Tafseer-e-Majidi - Al-Ahzaab : 72
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ
اِنَّا : بیشک ہم عَرَضْنَا : ہم نے پیش کیا الْاَمَانَةَ : امانت عَلَي : پر السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَالْجِبَالِ : اور پہاڑ فَاَبَيْنَ : تو انہوں نے انکار کیا اَنْ يَّحْمِلْنَهَا : کہ وہ اسے اٹھائیں وَاَشْفَقْنَ : اور وہ ڈر گئے مِنْهَا : اس سے وَحَمَلَهَا : اور اس اٹھا لیا الْاِنْسَانُ ۭ : انسان نے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا ظَلُوْمًا : ظالم جَهُوْلًا : بڑا نادان
ہم نے (یہ) امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی،153۔ سو ان سب نے انکار کیا اس سے کہ اسے اٹھائیں اور وہ اس سے ڈرے،154۔ اور اسے انسان نے اپنے ذمہ لے ل یا،155۔ بیشک وہ بڑا ظالم ہے بڑا جاہل ہے،156۔
153۔ (ان میں بقدر ضرورت شعور پیدا کرکے) (آیت) ’ الامانۃ “۔ کے معنی میں اختلاف بہت کچھ منقول ہے۔ لیکن بیشتر اختلاف ایسے ہیں کہ ان کے درمیان تطبیق آسانی ممکن ہے۔ مثلا راغب ہی نے اپنی لغت میں دو مختلف معنی لکھے ہیں، ایک توحید کے، دوسرے عقل کے اور ترجیح دوسرے معنی کو دی ہے۔ قیلھی کلمۃ التوحید، قیل العقل وھو صحیح ..... وبہ فضل علی کثیر ممن خلقہ۔ لیکن جس سیاق میں لفظ (آیت) ” امانۃ “۔ آیا ہے اس کے لحاظ سے توحید کی معرفت وشناخت کا آلہ و معیار، عقل وقوت امتیاز ہی کی بناء پر تو احکام الہی انسان پر فرض ہوتے ہیں۔ اسی امانت کا بار اٹھالینا ہی رحمت کا موجب ہے، اور اس کا ضائع کرنا ہی تعذیب کا سبب ہے۔ احکام کی تشبیہ امانت سے دینے سے غالبا مقصود ان کی ادائی کا وجوب ہے۔ اور امانۃ سے مراد طاعت ہی کا ہونا اکثر اہل تحقیق سے منقول ہے۔ یا پھر اصول وارکان دین۔ یعنی بالامانۃ الطاعۃ (ابن کثیر عن ابن عباس ؓ قال مجاھد الامانۃ الفرائض وحدود الدین (معالم) وقال ابوالعالیۃ ہ ماامروابہ ونھوا عنہ (معالم) والامانۃ تعم جمیع وظائف الدین علی الصحیح من الاقوال (قرطبی) مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی (رح) کی تحقیق میں امانت سے مراد تجلی ذاتی کی استعداد و قابلیت ہے۔ جنات عبادت سے صالح بن جاتے ہیں۔ اور ملائکہ عصمت سے مقرب ہیں، مگر انوار صفات سے صعود کرکے تجلی ذات سے یہ دونوں اصناف بھی مشرف نہیں ہوسکتے۔ اس لئے کہ تحمل نور ممکن نہیں بغیر ترکیب عنصر خاک کے۔ قیام انوار اجسام شفاف پر نہیں ہوسکتا۔ اسکے محل ومحتمل اجسام کثیف ہی ہوسکتے ہیں۔ یہی نکتہ ہے کہ خلافت دنیوی کے قابل عنصر خاک ہی قرار پایا۔ 154۔ یعنی اس کے نہ اٹھ سکنے سے اور اپنے انجام سے ڈرے، مطلب یہ ہوا کہ انسان کے سوا باقی اور قوی سے قوی مخلوق نے اس کی ذمہ داریوں کے ڈر سے قوت، ارادہ واختیار کے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ (آیت) ” اشفقن “۔ کی صراحت سے یہ حقیقت صاف ہوگئی کہ یہ اباء و انکار کسی تمردو شرارت سے نہ تھا، بلکہ تمامتر خشیت پر مبنی تھا۔ حسن بصری (رح) سے روایت ہے کہ ساتوں آسمانوں اور عرش سے خطاب ہوا کہ تم یہ امانت اور جو کچھ اس میں سے اٹھاؤگے ؟ عرض کیا کہ اس میں کیا ہے ؟ ارشاد ہوا کہ نیکی پر اجروثواب اور بدی پر مواخذہ و عذاب۔ اس پر ان سب نے عذر کردیا۔ پھر اسی طرح زمین سے پھر پہاڑوں سے خطاب و جواب ہوا (ابن کثیر) اور ابن جریج کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ یہ معاملہ تین دن تک پیش رہا، اور سب نے بکمال خشیت عذر کیا کہ اے پروردگار ! ہم تو محض تابع اور حکمبردار ہیں، ہم عذاب وثواب نہیں چاہتے۔ (ابن کثیر) 155۔ (بغیر عواقب کا پورا لحاظ کئے ہوئے) (آیت) ” الانسان “۔ سے مراد جنس انسانی ہے، جیسا کہ بعض دوسری آیتوں میں بھی انسان اسی معنی میں آیا ہے۔ مثلا (آیت) ” ان الانسان لربہ لکنود “۔ یا ” ان الانسان لیطغی “۔ اے ھذا الجنس (روح) 156۔ (آیت) ” ظلوما “۔ یعنی اپنی عملی زندگی میں بڑا حق ناشناس (آیت) ” جھولا “۔ یعنی اپنی اعتقادی زندگی میں بڑا کوتاہ اندیش۔
Top