Tafseer-e-Majidi - Al-Ahzaab : 9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوْا : یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ جَآءَتْكُمْ : جب تم پر (چڑھ) آئے جُنُوْدٌ : لشکر (جمع) فَاَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجی عَلَيْهِمْ : ان پر رِيْحًا : آندھی وَّجُنُوْدًا : اور لشکر لَّمْ تَرَوْهَا ۭ : تم نے انہیں نہ دیکھا وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اے ایمان والو اللہ کا انعام اپنے اوپر یاد کرو جب تم پر (کئی کئی) لشکر چڑھ آئے،20۔ پھر ہم نے ان پر ایک آندھی بھیجی اور ایسی فوج جو تم کو دکھائی نہیں دیتی،21۔ اور اللہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا تھا،22۔
20۔ (یعنی قریش مکہ کا لشکر، قبیلہ غطفان کا لشکر اور یہود کا لشکر) شوال 5 ؁ ہجری کا واقعہ ہے کہ اسلام کے مخالفین نے ایکا کرکے مدینہ پر دھاوابول دیا، اور شہر کو ہر طرف سے گھیر لیا۔ تاریخ میں اس جنگ کا نام جنگ احزاب ہے۔ چار ہزار کی تعداد میں تو قریش ہی کا لشکر تھا، جس میں تین سو سوار اور ڈیڑھ ہزار شتر سوار تھے۔ مجموعی تعداد ان لشکروں کی کم ازکم سات ہزار کی تھی، بغض تخمینے دس اور بارہ ہزار بلکہ بعض پندرہ ہزار کے بھی تھے۔ افسر اعلیٰ ابوسفیان قریشی تھا۔ عرب نے اتنی بڑی فوج کشی کی مثال اس سے پہلے نہیں دیکھی تھی، مسلمانوں کی جمعیت کل 3 ہزار کی تھی۔ حضرت سلمان فارسی ؓ صحابی کے مشورہ پر لشکر اسلام کے سالار اعظم ﷺ نے خود گھوڑے سوار ہو کر شہر کا دورہ کرنے کے بعد حکم دیا کہ شہر کے گرد جس جس رخ سے دشمن کا داخلہ ممکن ہے خندق کھوددی جائے۔ چناچہ شہر کے شمالی اور کسی قدر غربی رخ پر بھی ایک خندق تقریبا ساڑھے تین میل لمبی کھودی گئی۔ اور یہ کام 3 ہزار رضاکاروں کی دس دس کی تولیوں پر تقسیم کردیا گیا۔ غرض اس غزض اس غزوہ کو غزوۂ خندق بھی اسی بناء پر کہتے ہیں۔ ..... عرب کے لئے یہ ایک نئی حکمت جنگ تھی، اور قریش اس پر دنگ رہ گئے۔ محاصرہ طول کھنچتا گیا۔ یہاں تک کہ شوال ختم ہونے پر آگیا، اور ذی قعدہ شروع ہونے لگا جسے قبائل عرب صلح وامن کا مہینہ مانتے تھے۔ اور اس درمیان میں خود سپہ سالار اسلام ﷺ ہی کے حسن تدبیر سے دشمن اور حلیفوں کے آپس میں بدگمانیاں اور غلط فہمیاں پھیل گئیں۔ سردار ابوسفیان بددل ہو ہی چلا تھا کہ حکم قضا سے ایک روز طوفان آندھی اور بارش کا، زور شور کا آیا، اور اس کی پوری زد لشکر کفار پر پڑی، خیمے اکھڑگئے، برتن لڑھک گئے، روشنیاں بجھ گئیں، غرض ابتری ہر طرف پھیل گئی، قریش کا لیڈر اس غیبی گولہ کی تاب اور بھی نہ لاسکا۔ میدان جنگ چھوڑ چل دیا، اور پھر اور سارے لیڈر بھی ایک ایک کرکے رخصت ہوگئے۔ 21۔ مراد فرشتوں کی فوج ہے۔ وھم الملائکۃ (ابن کثیر، معالم) بعض صحابہ (مثلا حضرت حذیفہ ؓ) کا جو فرشتوں کو دیکھنا مروی ہوا ہے۔ یہ (آیت) ” لم تروھا “۔ کے منافی نہیں۔ (آیت) ” لم تروھا “۔ سے مراد صرف اس قدر ہے کہ فرشتے عام طور پر غیر مرئی تھے۔ بطور کرامت وخرق عادت کسی خاص صحابی پر ان کا مکشوف ہوجانا اس عام قاعدہ عدم مرئیت کے معارض نہیں۔ 22۔ (خصوصا تمہاری ہمت وثبات و استقلال، مستعدی، کار گزاری کو)
Top