Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 106
وَّ اسْتَغْفِرِ اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۚ
وَّاسْتَغْفِرِ : اور بخشش مانگیں اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اور آپ اللہ سے مغفرت چاہیے، بیشک اللہ بڑا ہی مغفرت والا ہے بڑا ہی رحیم ہے،299 ۔
299 ۔ یہ استغفار کا حکم رسول ﷺ کو کس کے لئے مل رہا ہے ؟ اپنے حق میں یا امت کے حق میں۔ بہ ظاہر یہ حکم استغفار ان لوگوں کے حق میں معلوم ہوتا ہے، جو برادری کے خیال سے اس مجرم منافق کے حق میں ساعی اور سفارشی تھے اور قرآن مجید میں اس اسلوب بیان کی مثالیں اور جگہوں پر بھی ملتی ہیں۔ مثلا (آیت) ” یایھا النبی اتق اللہ “۔ یا و، ان کنت فی شک “۔ وغیرھا۔ چناچہ اہل تفسیر کا ایک گروہ اسی طرف گیا ہے۔ قیل الخطاب للنبی ﷺ المراد بنو ابیرق (قرطبی) والمعنی استغفر اللہ للمذنبین من امتک والمتخاصمین بالباطل (قرطبی) یحتمل ان یکون المراد واستغفروا اللہ لاولئک الذین یذبون عن طعمۃ ویریدون ان یظھروا براء تۃ عن السرقۃ (کبیر) لیکن اگر یہ معنی لئے جائیں کہ اے پیغمبر آپ اپنے حق میں مغفرت طلب کیجئے تو اس سے اشارہ آپ ﷺ کے صرف اس میلان طبع کی جانب ہے کہ آپ نے بنوابیرق کی شکایت پر حضرت قتادہ بن نعمان ؓ سے اظہار ناراضی فرمایا۔ یہ میلان طبع ظاہر ہے کہ معصیت کبیرہ کیا معنی صغیرہ کا بھی درجہ نہیں رکھتا لیکن پیغمبر تقوی اور طہارت قلب کے جس بلند ترین مقام پر ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے اس قدر ارادہ اور میلان طبع بھی قابل استغفار قرار پایا۔
Top