Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 108
یَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَ لَا یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰهِ وَ هُوَ مَعَهُمْ اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰى مِنَ الْقَوْلِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطًا
يَّسْتَخْفُوْنَ : وہ چھپتے (شرماتے) ہیں مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ وَلَا : اور نہیں يَسْتَخْفُوْنَ : چھپتے (شرماتے) مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَھُوَ : حالانکہ وہ مَعَھُمْ : ان کے ساتھ اِذْ يُبَيِّتُوْنَ : جب راتوں کو مشورہ کرتے ہیں وہ مَا لَا : جو نہیں يَرْضٰى : پسند کرتا مِنَ : سے الْقَوْلِ : بات وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں مُحِيْطًا : احاطہ کیے (گھیرے) ہوئے
یہ لوگ آدمیوں سے شرماتے ہیں اور اللہ سے نہیں شرماتے درآنحالیکہ وہ ان کے ساتھ اس وقت بھی رہتا ہے جب وہ رات میں اس بات کا مشورہ کرتے ہیں جو اسے پسند نہیں، اور وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں اللہ اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے،302 ۔
302 ۔ (اس کے احاطہ علم سے کون سی کارروائی مخفی سے مخفی بھی باہر رہ سکتی ہے ؟ ) اس حقیقت کا استحضار ہر جرم، ہر معصیت سے باز رکھنے کو کافی ہے۔ (آیت) ” یستخفون من الناس “۔ یعنی خلق کے سامنے ذلت ورسوائی سے شرماتے ہیں۔ (آیت) ” لا یستخفون من اللہ “۔ یعنی اللہ کے حضور میں بہ طور مجرم پیش ہونے سے نہیں شرماتے ہیں۔ (آیت) ” اذ یبیتون۔۔۔ القول “۔ اشارہ ہے اس طرف کہ اس خاص معاملہ میں رات کو باہم راز دارانہ مشورہ ہوا تھا کہ صبح کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گفتگو اسی طریقہ پر کی جائے گی۔ (آیت) ” وھو معھم “۔ معتزلہ، قدریہ، جہمیہ، وغیرہ نے اس قسم کی آیتوں سے حق تعالیٰ کی معیت مکانی پر استدلال کیا ہے۔ قال الجھمیۃ والقدریۃ والمعتزلۃ ھو بکل مکان تمسکا بھذہ الایۃ وما کان مثلھا (قرطبی) لیکن اہل سنت اسے شان تزیہی کے منافق سمجھتے ہیں۔ اور انہوں نے مراد صرف معیت علمی لی ہے۔ ای بالعلم والرؤیۃ والسمع ھذا قول اھل السنۃ (قرطبی) یرید بالعلم والقدرۃ والرؤیۃ (کبیر)
Top