Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 119
وَّ لَاُضِلَّنَّهُمْ وَ لَاُمَنِّیَنَّهُمْ وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَیُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَّخِذِ الشَّیْطٰنَ وَلِیًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیْنًاؕ
وَّلَاُضِلَّنَّھُمْ : اور انہیں ضرور بہکاؤں گا وَلَاُمَنِّيَنَّھُمْ : اور انہیں ضرور امیدیں دلاؤں گا وَلَاٰمُرَنَّھُمْ : اور انہیں سکھاؤں گا فَلَيُبَتِّكُنَّ : تو وہ ضرور چیریں گے اٰذَانَ : کان الْاَنْعَامِ : جانور (جمع) وَلَاٰمُرَنَّھُمْ : اور انہیں سکھاؤں گا فَلَيُغَيِّرُنَّ : تو وہ ضرور بدلیں گے خَلْقَ اللّٰهِ : اللہ کی صورتیں وَمَنْ : اور جو يَّتَّخِذِ : پکڑے (بنائے) الشَّيْطٰنَ : شیطان وَلِيًّا : دوست مِّنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا فَقَدْ خَسِرَ : تو وہ پڑا نقصان میں خُسْرَانًا : نقصان مُّبِيْنًا : صریح
اور میں انہیں گمراہ کرکے رہوں گا اور ان میں ہوس پیدا کرکے رہوں گا اور انہیں حکم دوں گا،318 ۔ چناچہ وہ چوپایوں کے کانوں کو تراشیں گے،319 ۔ اور انہیں حکم دوں گا تو وہ اللہ کی بناوٹ میں تبدلی کریں گے،320 ۔ اور جو کوئی اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا دوست بنائے گا وہ یقیناً کھلے ہوئے نقصان میں رہے گا،321 ۔
318 ۔ یعنی ان کے عقائد اور بنیادی خیالات کو بھی ڈگمگادوں گا۔ اور ان کی نفسانی جذبات اور خواہشات کو بھی ابھار دوں گا۔ گمراہیاں دو ہی طریقوں سے آسکتی ہیں اور انسانی شیطانی اثر دو ہی شکلوں سے قبول کرسکتا ہے۔ ایک عقل وفکر کی راہ سے۔ دوسرے جذبات اور احساسات کا راستہ ہے۔ قرآن مجید کے دو لفظوں نے ان سب کا احاطہ کرلیا۔ ضلال کے تحت میں ہر قسم کی عقلی، فکری، نظری گمراہیاں آگئیں۔ اور تمنی کے تحت میں معاصی، فواحش کی جانب میلان اور نظر سے ان کی مضرتوں کا غائب ہوجانا آگیا۔ 319 ۔ (بتوں کے نام پر) عرب جاہلیت کے ایک خاص دستور کی طرف اشارہ ہے۔ کان کے پیچھے جو غدود ہوتے ہیں، وہ غدود بندروں کے کاٹ کاٹ کر انسان کے جسم میں ان کی تقلیم کی ہوا جو اس زمانہ میں چلنی شروع ہوئی ہے۔ اور عجب نہیں کہ کل بندروں سے گزر کر دوسرے جانوروں اور چوپایوں تک پہنچ جائے، ادھر اگر فاطر کائنات کے کلام میں اشارہ ہے تو کچھ عجب نہیں۔ 320 ۔ تغییر خلق اللہ کی دو بڑی تقسمیں ہوسکتی ہیں، ایک خلق تکوینی میں تغییر، دوسرے خلق تشریعی میں تغییر، قدیم مفسرین نے تغییر خلق تکوینی کی مثال میں داڑھی منڈانے اور جسم گدانے کو پیش کیا ہے۔ لیکن جاہلیت جدید کی ترقیوں نے ان سے کہیں بڑھ بڑھ کر مثالیں نہ صرف ایجاد کرلی ہیں بلکہ انہیں فیشن میں داخل کردیا ہے۔ مثلا مردوں کا چہرہ کے بال بالکل صاف کرکے اور طرح طرح کی نزاکتیں اختیار کرکے زیادہ حد تک عورت بن جانا، عورتوں کا سر کے بال کٹا کر اور مردانہ وضع و لباس اختیار کرکے زیادہ سے زیادہ حد تک مرد بن جانا، ایسے اپریشن کرانا جس سے جنس تبدیل ہوجائے یعنی عورت مرد بن جائے اور مرد عورت ہوجائے۔ وقس علی ہذا۔ خلق تشریعی میں تغییر کے معنی دین اور احکام دین تحریف کردینا ہے۔ قیل معناہ یغیرون حکمہ (راغب) ابن جریر نے خلق اللہ کے معنی دین اللہ کے ابن عباس ؓ صحابی اور مجاہد تابعی اور عکرمہ تابعی سے نقل کئے ہیں اور دوسروں نے بھی یہی معنی لئے ہیں۔ ای دینہ بالکفر واحلال ما حرم وتحریم ما احل (جلالین) قال معناہ ابن عباس وعن عکرمۃ وابو صالح وذلک کلہ تعذب للحیوان وتحریم وتحلیل بالطغیان وقولہ بغیر ھجۃ ولا برھان (قرطبی) یہ بھی کہا گیا ہے کہ آفتاب پرستی، شجر پرستی، حیوان پرستی وغیرہ سب اس تغییر خلق اللہ کی صورتیں ہیں کہ مشرک ان سے وہ کام لے رہا ہے جس کے لئے ان کی خلقت ہوئی ہی نہ تھی۔ (قرطبی)321 ۔ شیطان کا دوست بنانا یہی ہے کہ احکام شریعت کو چھوڑ کر خود ساختہ طور طریقوں کو اختیار کیا جائے اور مخلوق کے چلائے ہوئے رسم و رواج کو دلیل راہ بنا لیاجائے۔
Top