Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 157
وَّ قَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ١ۚ وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ١ؕ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ١ۚ وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًۢاۙ
وَّقَوْلِهِمْ : اور ان کا کہنا اِنَّا : ہم قَتَلْنَا : ہم نے قتل کیا الْمَسِيْحَ : مسیح عِيْسَى : عیسیٰ ابْنَ مَرْيَمَ : ابن مریم رَسُوْلَ : رسول اللّٰهِ : اللہ وَمَا قَتَلُوْهُ : اور نہیں قتل کیا اس کو وَمَا صَلَبُوْهُ : اور نہیں سولی دی اس کو وَلٰكِنْ : اور بلکہ شُبِّهَ : صورت بنادی گئی لَهُمْ : ان کے لیے وَاِنَّ : اور بیشک الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا : جو لوگ اختلاف کرتے ہیں فِيْهِ : اس میں لَفِيْ شَكٍّ : البتہ شک میں مِّنْهُ : اس سے مَا لَهُمْ : نہیں ان کو بِهٖ : اس کا مِنْ عِلْمٍ : کوئی علم اِلَّا : مگر اتِّبَاعَ : پیروی الظَّنِّ : اٹکل وَ : اور مَا قَتَلُوْهُ : اس کو قتل نہیں کیا يَقِيْنًۢا : یقیناً
اور بہ سبب ان کے (اس) قول کے کہ ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم کو مار ڈالا، جو مسیح (علیہ السلام) اور اللہ کے پیغمبر تھے۔396 ۔ حالانکہ نہ وہ آپ کو مار ڈال سکے اور نہ آپ کو سولی ہی پر چڑھا پائے397 ۔ بلکہ ان پر شبہ ڈال دیا گیا،398 ۔ اور یہ لوگ آپ (علیہ السلام) کے بارے میں اختلاف کررہے ہیں،399 ۔ وہ آپ (علیہ السلام) کی طرف سے شک میں پڑے ہوئے،400 ۔ ان کے پاس کوئی (صحیح) تو ہے نہیں ہاں بس گمان کی پیروی ہے،401 ۔ اور یقینی بات ہے کہ انہوں نے آپ کو مار نہیں ڈالا،402 ۔
396 ۔ یہ قول کس کا تھا ؟ ظاہر ہے کہ یہود ہی کا تھا، جو اس پر خوش بھی ہوئے تھے، اور اس کا دعوی بھی فخر کے ساتھ کررہے تھے۔ (آیت) ” المسیح۔ رسول اللہ “۔ یہ دونوں الفاظ یہود کے نہیں، وہ انہی دونوں منصبوں یا مسیحیت اور رسالت ہی کے تو منکر تھے، قرآن حمید نے نفس واقعہ کے لحاظ سے ان کا صحیح منصب بیان کردیا۔ قرآن مجید کا یہ اسلوب بیان عام ہے ھو اخبار من اللہ تعالیٰ بصفۃ عیسیٰ (بحر، عن ابن عطیہ) یجوز ان یضع اللہ الذکر الحسن مکان ذکر ھم القبیح فی الحکایۃ عنھم (کبیر، کشاف) یحتمل ان یکون الستنافامن اللہ تعالیٰ بمدحہ (بیضاوی) یحتمل ان اللہ وصفہ بالرسول وان لم یقولوا ذلک (مدارک) (آیت) ” انا قتلنا “۔ قتل کے اصل معنی روح کو جسم سے جدا کردینے کے ہیں، خواہ کسی طریقہ پر ہو۔ اسی کو اردو محاورہ میں ” ختم کردینا “ یا ” کام تمام کردینا “۔ کہتے ہیں۔ اصل القتل ازالۃ الروح عن الجسد (راغب) قتلہ ای اماتہ بضرب اوحجر اوسم او علۃ (تاج) ھو ازالۃ الروح عن الجسد کالموت (ابو البقاء) اور امام قرطبی نے ایک دوسری آیت (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تقتلوالصید “ کے تحت میں لکھا ہے القتل ھو کل فعل یفیت الروح وھو النواع من النحر والذبح والخنق والرضخ وشبہ۔ یہاں اصطلاح فقہ کا قتل مراد نہیں جس کے معنی محض کسی دھا دار آلہ سے ہلاک کرنے کے ہوتے ہیں۔ تاریخ کا بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سزائے موت اگرچہ رومی عدالت سے ملی، اور وہی ملکی عدالت نفاذ سزا پر قادر تھی، لیکن آپ (علیہ السلام) کو سزا دلوانے میں اور آپ کے لیے سزائے موت کا حکم سنوانے میں ہاتھ تمامتر یہود ہی کا کام کررہا تھا۔ اسی لئے قرآن مجید نے بھی، جو تاریخ کی دقیق حقیقتوں کو بھی نظر انداز نہیں ہونے دیتا بالکل صحیح طور پر آپ کے قتل یا اقدام قتل کی ذمہ داری یہود ہی پر رکھی۔ انجیلیں اتنے جزو پر متفق المعنی (بلکہ ایک حد تک متفق اللفظ بھی) ہیں کہ رومی عدالت کا حاکم پیلا طیس آپ (علیہ السلام) کو سزا دینا ہرگز نہیں چاہتا تھا، بلکہ اس سے برابر بچ رہا تھا، یہ یہود ہی تھے، جنہوں نے استغاثہ جھوٹا گڑھا، گواہیاں جھوٹی فراہم کیں، اور بلوہ و فساد کی دھمکی دے دے کر اسے حکم سنانے پر مجبور کردیا، انجیل متی کا ایک مختصر سابیان ملاحظہ ہو :۔ ” جب پیلاطس نے دیکھا کہ کچھ نہیں بن پڑتا، بلکہ الٹا بلوہ ہوا جاتا ہے، تو پانی لے لے کر لوگوں کے روبرو اپنے ہاتھ دھوئے اور کہا میں راستباز کے خون سے بری ہوں، تم جانو۔ سب لوگوں نے کہا کہ اس کا خون ہماری اور ہماری اولاد کی گردن پر۔ اس پر اس نے برابا کو ان کی خاطر چھوڑ دیا اور یسوع کو کوڑے لگوا کر حوالہ کیا تاکہ صلیب دی جائے “۔ (27:24، 26) اسی کی تائید دوسری انجیلیں بھی کرتی ہیں، بلکہ لوقا میں تو اتنی تصریح اور زائد ہے کہ حاکم نے ملزم کو سزائے موت سے بچانے کی تین تین بار کوشش کی، لیکن یہود نے ہر دفعہ اس کی بات کو رد کردیا۔ (23:22) یہ بیانات تو مسیحیوں کے تھے۔ خودیہود کی لکھی ہوئی جو قدیم ترین حیات مسیح دنیائے معلوم میں موجود ہے، یعنی جو زیفس کی اور جس کا ترجمہ انگریزی میں Antiquities of Jewish کے نام سے شائع ہوچکا ہے، اس میں اس واقعہ کو ٖخر کے ساتھ اپنی ہی جانب منسوب کیا ہے۔ (حاشیہ صفحہ 46) انجیلوں میں جو پیشگوئیاں حضرت مسیح (علیہ السلام) کی زبان سے اپنے قتل ہونے کی بابت منقول ہیں، ان میں بھی ساری ذمہ داری سرداران یہود ہی کے سر ملتی ہے اور رومیوں یا حاکموں کا ذکر نہیں آیا :۔ ” اس وقت سے یسوع اپنے شاگردوں پر ظاہر کرنے لگا کہ مجھے ضرور ہے کہ یروشلم کو جاؤں اور بزرگوں اور سردار کاہنوں اور فقیہوں کی طرف سے بہت دکھ اٹھاؤں اور قتل کیا جاؤں۔ “ (متی۔ 16:2 1) ” پھر وہ انہیں تعلیم دینے لگا کہ ضرور ہے کہ ابن آدم بہت دکھ اٹھائے اور بزرگ اور سردار کاہن اور فقیہ اسے رد کریں اور وہ قتل کیا جائے۔ (مرقس 8:3 1) ” ضرور ہے کہ ابن آدم (علیہ السلام) بہت دکھ اٹھائے اور بزرگ اور سردار کاہن اور فقیہ اسے رد کریں اور وہ قتل کیا جائے۔ (لوقا 9 ۔ 22) 397 ۔ یعنی آپ (علیہ السلام) کا کام تمام کردینا تو الگ رہا یہود تو واقعۃ اتنا بھی نہ کرسکے کہ اس زمانہ میں اس ملک میں جو طریقہ سزائے موت کا تھا اسی تک پہنچ جاتے ! یعنی آپ (علیہ السلام) کو سولی پر چڑھا تک نہ سکے۔ (آیت) ” وما صلبوہ “۔ صلبوا کے اصل معنی محض سولی پر لٹکانے یا چڑھانے کے ہیں، چڑھا کر ختم کردینے کے نہیں۔ ھو تعلیق الانسان للقتل (راغب) اردو میں یہ مفہوم ” سولی دینے “ سے نہیں ” سولی چڑھانے “ ہی سے ادا ہوتا ہے۔ چناچہ شاہ ولی اللہ (رح) نے اپنے فارسی ترجمہ، اور شاہ عبدالقادر (رح) اور علامہ تھانوی (رح) نے اپنے اپنے اردوترجموں میں بھی یہی مفہوم لیا ہے۔ 398 ۔ یا ” وہ دھوکے میں ڈال دیئے گئے یا ” حقیقت ان پر مشتبہ ہوگئی “۔ یہ شبہ میں کون پڑگئے یا حقیقت کن پر مشتبہ وملتبس ہوگئی ؟ ظاہر ہے کہ مراد وہی یہود یا اعدائے مسیح ہیں جن کا ذکر اوپر سے چلا آرہا ہے۔ کانہ قیل وقع علیھم الشبہ (مدارک) التبس علیھم الامر (بیضاوی) یا یوں کہا جائے کہ شبہ انہیں مقتول سے متعلق ہوا، اور وہ دھوکے میں اس کی شخصیت کے بارے میں پڑگئے۔ شبہ لھم المقتول والمصلوب (جلالین) بہرحال اس پر ہمارے سارے مفسرین کا اتفاق ہے، کہ یہود کو دھوکا ہوا، اور وہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے دھوکے میں کسی اور کو سولی پر چڑھا گئے، لیکن یہ شخص کون تھا، اور دھوکے کی صورت کیا ہوئی، اس کا تصریحی جواب نہ قرآن مجید میں ہے نہ کسی حدیث صحیح میں، اب سوا اس کے چارہ نہیں رہتا کہ تاریخ کی روشنی میں واقعہ کے جزئیات کو ایک ایک کرکے لایا جائے، اس وقت کے پس منظر کو سامنے لایا جائے، اور جو صورت واقعہ نسبۃ قرین قیاس اور مطابق متقضائے حال معلوم ہو، اسی کو ترجیحی طور پر اختیار کیا جائے پہلی بات اس سلسلہ میں یاد رکھنے کے قابل یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یروشلم کے لوگوں سے ملتے جلتے کم تھے، نتیجہ یہ تھا کہ عوام تو عوام، خواص بھی آپ (علیہ السلام) کو پوری طرح پہچانتے نہ تھے۔ چناچہ جب آپ (علیہ السلام) کی گرفتاری کا وقت آیا، تو اس کے لیے اکابر یہود اور متعدد سپاہیوں کا ایک پورا گروہ اس ضرورت کے لیے کافی ثابت نہ ہوا، بلکہ آپ (علیہ السلام) کی شناخت کے لیے آپ (علیہ السلام) ہی کی مختصر سی پارٹی کے ایک منافق وغدار کو ساتھ لینا پڑا۔ یہ ایک خالص تاریخی حقیقت ہے لیکن امام المفسرین امام رازی اس راز سے بھی واقف ہیں۔ فرماتے ہیں۔ والناس ماکانوا یعرفوں المسیح الا بالاسم بانہ کان قلیل المخالطۃ للناس (کبیر) متی اور مرقس دونوں انجیلوں میں ہے کہ گرفتاری کرنے والی پارٹی میں سردار کاہنوں اور قوم کے بزرگوں کی طرف سے ایک ” بڑی بھیڑ تلواریں اور لاٹھیاں لیے ہوئے “ سپاہیوں کی شامل تھی، اس پر بھی گرفتاری اور شناخت کے لیے انہیں یہوداہ منافق کا سہارا ڈھونڈنا پڑا۔ اور انجیل یوحنا میں ہے کہ جب یہ پلٹن اور پیادے وہاں پہنچے تو ” یسوع نے ان سے پھر پوچھا کہ تم کسے ڈھونڈھتے ہو ؟ وہ بولے یسوع ناصری کو، یسوع نے جواب دیا میں تم سے کہہ تو چکا ہوں کہ میں ہی ہوں “۔ ( 18:3 ۔ 8) ” حضرت مسیح (علیہ السلام) “ کا تعظیمی تخیل تو بہت بعد کی پیداوار ہے۔ معاصر مخالفین ومعاندین کی نظر میں تو آپ (علیہ السلام) کی حیثیت صرف یسوع ناصری نامی ایک بدنام وغیرہ معروف مجرم کی تھی، وہ سامنے موجود تھا، اور پھر بھی کوئی پہچان نہیں رہا تھا، حالانکہ سب آئے تھے اسی کی تلاش میں ! دوسری بات یہ خیال رکھنے کی ہے کہ حضرت (علیہ السلام) کو، یابالفاظ یہود یسوع ناصری کو تبدیل ہئیت میں خاص ملکہ تھا، انجیلوں میں حضرت (علیہ السلام) کی اسی قدرت کو بہ طور معجزہ کے بیان کیا گیا ہے۔ ” چھ دن کے بعد یسوع نے پطرس اور یعقوب اور اس کے بھائی یوحنا کو ہمراہ لیا، اور انہیں ایک اونچے پہاڑ پر الگ لے گیا۔ اور ان کے سامنے اس کی صورت بدل گئی، اور اس کا چہرہ سورج کی مانند چمکا “۔ (متی۔ 17: 1، 2) ” جب وہ دعا مانگ رہا تھا تو ایسا ہوا کہ اس کے چہرہ کی صورت بدل گئی، اور اس کی پوشاک سفید براق ہوگئی “۔ (لوقا 9:29) نیز مرقس 9:2) ۔ یہ معجزہ تھا یا نہ تھا، یہ ایک الگ بحث ہے۔ بہرحال آپ (علیہ السلام) کو نفس قدرت اس پر حاصل تھی، تیسرے، اس تاریخی حقیقت کا استحضار ذہن میں کرلیاجائے، کہ ملک (شام و فلسطین) کی آبادی اس وقت اسرائیلیوں (یہود) کی تھی اور اسی برادری کے ایک فرد آپ (علیہ السلام) بھی تھے۔ لیکن ملک پر حکومت رومیوں کی تھی، اور اعلی عہدہ دار اور پولیس اور فوج رومیوں پر مشتمل تھی، اور یہ رومی نہ صرف مشرک یعنی دین و عقیدہ میں اسرائیلیوں سے مختلف تھے، بلکہ صورت شکل، وضع و لباس، زبان ومعاشرت وغیرہ میں بھی ان سے ایسے ہی الگ تھے جیسے آج انگریز ہندوستانیوں سے مختلف وممتاز ہیں۔ اور جس طرح آج ہندوستانیوں کو سب فوجی گورے یکسان اور گوروں کو سارے ” کالے “ ایک سے معلوم ہوتے ہیں، بدیسی رومی سپاہیوں اور فوجیوں کی نظر میں سب یہود یہود، اور اسرائیلی اسرائیلی بھی ایک ہی تھے، چوتھی کڑی اس سلسلہ کی یہ ملائیے، کہ جس مقام پر رومی عدالت تھی، وہاں سے سرکاری سولی گھر فاصلہ پر تھا، اور سولی یا صلیب جس کی شکل انگریزی چھاپہ کے بڑے حرف (ٹی) T کے مشابہ یاریلوے سگنل سے ملتی جلتی ہوتی تھی، وہ سولی گھر میں پوری گڑی ہوئی نہیں ہوتی تھی، صرف اس کا سیدھا اور کھڑا ستون زمین میں گڑا ہوارہتا تھا، باقی جو لکڑی اس کے اوپر آڑی آڑی پڑتی تھی، اس کے لیے قاعدہ یہ تھا کہ وہ مجرم کو عدالت سے اپنے اوپر لاد کر سولی گھرتک لانی پڑتی تھی، یہاں تک جو کچھ عرض ہوا، اس پر ایک نظر دوبارہ کرکے امور ذیل کو بھی نظر کے سامنے لے آئیے ‘۔ ( 1) حکم جب سنایا گیا ہے، جمعہ کا دن تھا، اور دن آخر ہورہا تھا، اور یہود کو جلدی کتھی کہ ہر طرح فراغت پاکر شاموں شام گھر واپس آجائیں۔ جمعہ کی شام ہی سے ان کا یوم السبت شروع ہوجاتا تھا، اور یوم السبت کے حدود کے اندر مجرم کی سزادہی وغیرہ بھی ممنوع تھی، اور پھر یہود کا اہم تہوار، عید فسخ (Passover) بھی شروع ہورہی تھی، غرض یہود کو اس کی بہت ہی عجلت تھی کہ کسی طرح ان کا یہ مجرم جلد سے جلد سولی پاکر شام سے قبل ہی دفن ہوجائے۔ ( 1) لاغروناتوان مجرم (یعنی خود حضرت مسیح علیہ السلام) کے لیے ممکن نہ تھا کہ اتنی وزنی لکڑی لاد کر اتنا فاصلہ یہود کی خاطر خواہ تیزی سے طے کرسکیں۔ خصوصا جب کہ یہودی بچے اور شریر قسم کے یہود خود ہی قدم قدم پر انہیں چھیڑتے جاتے، اور ان کا راستہ کھوٹا کرتے جاتے۔ اب اس ساری صورت حال کو اس تفصیل کے ساتھ پیش نظر رکھ کر فرمائیے کہ رومی سپاہی، جو مجرم، بلکہ مجرموں کو (آپ کے ساتھ سولی کے لیے دو مجرم اور بھی تھے) حراست میں لیے ہوئے تھے۔ اور یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ وہ رعایا میں سے نہیں، بلکہ حاکم قوم کے افراد تھے، ایسے موقع پر کیا کرتے ؟ خود تو اپنے اوپر وہ سولی والی لکڑی کا بوجھ لادنے سے رہے۔ انہوں نے وہی کیا جو ان کی جگہ پر کوئی بھی ان جیسا انسان کرتا، انہوں نے مجمع ہی میں سے کسی بدتمیز یہودی کو پکڑلیا، اور صلیب کی لکڑی اسی پر لاد دی ! انگریز گارد ایسے موقع پر، یعنی کسی ہندوستانی مجرم حراست میں لیے جاتا ہوتا تو کیا کرتا ؟ یہی کرتا کہ بھیڑ میں کسی ہندوستانی ہی کو پکڑ لیتا اور اس پر لاد دیتا۔ یہ محض قیاس وقرینہ نہیں، انجیلوں میں اتنے جزو کی تصریح موجود ہے :۔ انہیں شمعون نام ایک کرینی آدمی ملا۔ اسے بیگار پکڑا کہ اس کی صلیب اٹھائے “۔ (متی۔ 27:32) ” اور شمعون نام ایک کرینی آدمی اسکندر اور روقس کا باپ دہات سے آتے ہوئے ادھر سے گزرا۔ انہوں نے اسے بیگار میں پکڑا کہ اس کی صلیب اٹھائے “۔ (مرقس۔ 15:2 1) ” اور جب اس کو لیے جاتے تھے، تو انہوں نے شمعون نام ایک کرینی کو جو دیہات سے آتا تھا، پکڑکے صیلب اسی پر رکھ دی کہ یسوع کے پیچھے پیچھے چلے “ (لوقا 23:26) جب یہ مجمع (جو یقیناً کوئی باقاعدہ ومنظم مجمع نہیں، بلکہ عوام کی ایک بھیڑ تھا) اس افراتفری کے ساتھ ایک دوسرے کو ریلتا پیلتا، مجرم سے چھیڑچھاڑ کرتا، اس سے تمسخر کرتا ہوا، سولی گھر کے پھاٹک پر پہنچا، تو رومی پویس گارڈ جو ساتھ تھا، اب اس کی ڈیوٹی ختم ہوگئی، اب یہاں سے جیل کے سنتریوں کا عمل ودخل شروع ہوتا ہے۔ وہ کیا جانیں، کہ یسوع ناصری کس کا نام ہے، وہ اپنے حسب دستور مجرم اسی کو سمجھے جس کے اوپر صلیب لدی ہوئی تھی،۔۔ ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کو مستحضر کرلیجے کہ جیل کے رومی سپاہیوں کے لئے سب یہودی اجنبی ہی تھے اور اس لیے باہمد گرہم شکل اور یکساں، انہیں ایک اسرائیلی (یسوع ناصری) اور دوسرے اسرائیلی (شمعون کرینی) کے درمیان اشتباہ نہایت آسان تھا، انہیں دونوں کے درمیان کوئی نمایاں فرق ہی نہیں نظر آسکتا تھا، شمعون نے یقیناً واویلا مچایا ہوگا، لیکن ادھر مجمع کا شور وہنگامہ ادھر جیل کے سپاہیوں کی اسرائیلیوں کی زبان سے ناواقفیت، اور پھر سولی پر لٹکا دینے کی جلدی، اسی افراتفری کے عالم میں اسی شمعون کو پکڑ کر سولی پر چڑھا دیا گیا، اور وہ چیختا چلاتا رہا، حضرت مسیح (علیہ السلام) قدرۃ اس ہڑبونگ میں دشمنوں کے ہاتھ سے رہا ہوگئے اور دشمن دھوکے میں پڑے ہوئے ٹامک ٹوئیے مارتے رہ گئے ! (آیت) ” ولکن شبہ لھم “۔ یہ عقیدہ نو ایجاد نہیں، خود مسیحیوں ہی کا ایک قدیم ترین فرقہ باسلید یہ (Basilidian) کے نام سے گزرا ہے (بانی فرقہ کا سال وفات ( 140 ء۔ ) وہ اسی عقیدہ کا قائل تھا۔ اور کھلم کھلا کہتا کہ مصلوب حضرت مسیح (علیہ السلام) نہیں ہوئے۔ بلکہ شمعون کروینی ہوا ہے۔ قرآن مجید نے اسی عقیدہ کی تصویب کی طرف اشارہ کردیا ہے۔ لیکن پولوس (متوفی 65 ء۔ ) کے اثر سے جو مسیحیت چلی اور پھیلی، اس کی تو بنیاد ہی عقیدۂ کفارہ پر ہے۔ یعنی اس عقیدہ پر کہ ابن اللہ نے یا خود خدائے مجسم ہوکر، اور صلیب پر جانکنی کی تکلیف اٹھا کر اور اپنی جان دے کر سب کی طرف سے مخلوق کے گناہوں کا کفارہ ادا کردیا۔ اس لیے یہ رواجی مسیحیت تو بغیر مصلوبیت مسیح (علیہ السلام) کو مانے اور فرض کیے ہوئے ایک قدم بھی آگے نہیں چل سکتی۔ اس لیے لامحالہ اس پولوسی اور کلیسائی مسیحیت نے کل قدیم صحیح العقیدہ مسیحی فرقوں کو ” بدعتی “ اور ” مبتدع “ قرار دے کر کلیسا سے خارج کردیا، اور خود ہی کہنے لگے جو دشمنان عیسیٰ (علیہ السلام) یعنی یہود پہلے ہی سے کہہ رہے تھے، یعنی یہی کہ عیسیٰ (علیہ السلام) صلیب پر وفات پاگئے ! گوظاہر ہے کہ اس اشتراک عقیدہ میں نیتیں دونوں کی بالکل الگ الگ ہیں، یہود وفات عیسیٰ (علیہ السلام) کو موقع تحقیر و اہانت میں بیان کرتے ہیں، اور مسیحی بعینہ اسی واقعہ سے آپ (علیہ السلام) کی عظمت پر دلیل لاتے ہیں، لیکن نفس عقیدہ بہرحال دونوں میں مشترک ہے۔ اور بڑے تاسف اور قلق کا مقام ہے کہ آج بیسویں صدی عیسوی میں بعض ” مسلمان “ فرقے بھی اسی گمراہی کی طرف واپس جارہے ہیں۔ اور طرفہ یہ ہے کہ وفات مسیح (علیہ السلام) کے اس باطل اور خلاف تحقیق عقیدہ کو ” روشن خیالی “ کا تمغہ اور تحقیق کا پروانہ سمجھ رہے ہیں ! 399 ۔ (آپس میں، کہ کوئی آپ کو مرتبہ الوہیت پر پہنچائے دیتا ہے اور کوئی مرتبہ عبدیت کا ملہ سے بھی نیچے اتارے لاتا ہے) (آیت) ” فیہ “ میں ضمیر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی جانب ہے ای فی شان عیسیٰ (علیہ السلام) (روح) ای فی عیسیٰ (علیہ السلام) (مدارک) ای فی عیسیٰ (علیہ السلام) (جلالین) (آیت) ” الذین اختلفوا فیہ “۔ سے مراد یہود ونصاری نعوذ باللہ آپ (علیہ السلام) کی خدائی کا کلمہ پڑھ رہا ہے۔ المراد من الموصول مایعم الیہود والنصاری جمیعا (روح) قیل الضمیر عائد علی الیھود والنصاری (بحر) 400 ۔ (آیت) ” شک “ کی بہترین تفسیر مفسرتھانوی (رح) نے کی ہے، یعنی قول بلادلیل، یعنی نظریہ پر نظریہ قائم کرتے چلے جاتے ہیں اور کوئی بات بنائے نہیں بنتی۔ مسیحی مسیحیوں سے دست و گریبان ہیں اور یہود یہودیوں سے، اندر ہی اندر خدا معلوم کتنے فرقے ہوگئے ہیں۔ اور ایک دوسرے کو جھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں۔ 401 ۔ (اور گمان یا اٹکل حقیقت رسی میں کہاں تک کافی ہوسکتی ہے ! ) مسیحیوں نے تو غضب ہی کر رکھا ہے، اپنے سارے مذہب یعنی الوہیت مسیح، وفات مسیح، احیاء مسیح (علیہ السلام) کی بنیاد تمامتر ظن ووہم پر رکھی ہے۔ (آیت) ” لہم “ میں ضمیر (آیت) ” ان الذین اختلفوا “ کی طرف ہے، یعنی وہ لوگ جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے باب میں جھگڑ رہے ہیں۔ یہود نصاری اور ان کے اندرونی فرقے (آیت) ” من علم “۔ علم سے مراد علم صحیح، علم ثابت بالدلائل ہے۔ اور من زائد ہے۔ من زائدۃ (قرطبی) چون نہ دیدند حقیقت رہ افسانہ زدند : یہود اور مسیحی دونوں قوموں کی روایتوں اور مکاتبوں کی بالکل صحیح تصویر قرآن مجید نے ان مختصر وجامع الفاظ میں کھینچ دی ہے۔ لکن یتبعون فیہ الظن الذی تخیلوہ (جلالین) ظن یہاں مقابل علم کے ہے۔ یعنی ایسا قول جو بالکل بلادلیل ہو اور جس کا مبنی نہ کوئی نص ہو نہ اس سے کوئی استنباط۔۔۔ یعنی کج فہموں نے آیتوں کے الفاظ سے نفی قیاس پر جو دلیل قائم کرنا چاہی ہے وہ بےاصل ہے قیاس فقہی تو خود ایک دلیل شرعی ہے استباط واستخراج کے مرادف۔ 402 ۔ (آیت) ” وما قتلوہ یقیناً “۔ میں ” یقیناً “۔ نفی قتل کی تاکید کے لیے ہے۔ کذلک ما قتلوہ حقا (کشاف) ماقتلوہ حقا فیجعل یقیناً تاکیدا لقولہ وما قتلوہ (مدارک) ای حق انتفاہ قتلہ حقا (مدارک) حال موکدۃ لنفی القتل (جلالین) عقیدۂ وفات مسیح (علیہ السلام) یا قتل مسیح (علیہ السلام) چونکہ بہت بڑی غلط فہمی یا گمراہی کا باعث ہے اور دنیا کی دو بڑی قومیں یہود اور مسیحی اسی غلطی میں مبتلا ہیں۔ اس لیے قرآں مجید کو اسکی تردید کی ضرورت بھی بہت وضاحت اور تاکید کے ساتھ پیش آئی۔
Top