Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 157
وَّ قَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ١ۚ وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ١ؕ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ١ۚ وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًۢاۙ
وَّقَوْلِهِمْ
: اور ان کا کہنا
اِنَّا
: ہم
قَتَلْنَا
: ہم نے قتل کیا
الْمَسِيْحَ
: مسیح
عِيْسَى
: عیسیٰ
ابْنَ مَرْيَمَ
: ابن مریم
رَسُوْلَ
: رسول
اللّٰهِ
: اللہ
وَمَا قَتَلُوْهُ
: اور نہیں قتل کیا اس کو
وَمَا صَلَبُوْهُ
: اور نہیں سولی دی اس کو
وَلٰكِنْ
: اور بلکہ
شُبِّهَ
: صورت بنادی گئی
لَهُمْ
: ان کے لیے
وَاِنَّ
: اور بیشک
الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا
: جو لوگ اختلاف کرتے ہیں
فِيْهِ
: اس میں
لَفِيْ شَكٍّ
: البتہ شک میں
مِّنْهُ
: اس سے
مَا لَهُمْ
: نہیں ان کو
بِهٖ
: اس کا
مِنْ عِلْمٍ
: کوئی علم
اِلَّا
: مگر
اتِّبَاعَ
: پیروی
الظَّنِّ
: اٹکل
وَ
: اور
مَا قَتَلُوْهُ
: اس کو قتل نہیں کیا
يَقِيْنًۢا
: یقیناً
اور بہ سبب ان کے (اس) قول کے کہ ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم کو مار ڈالا، جو مسیح (علیہ السلام) اور اللہ کے پیغمبر تھے۔
396
۔ حالانکہ نہ وہ آپ کو مار ڈال سکے اور نہ آپ کو سولی ہی پر چڑھا پائے
397
۔ بلکہ ان پر شبہ ڈال دیا گیا،
398
۔ اور یہ لوگ آپ (علیہ السلام) کے بارے میں اختلاف کررہے ہیں،
399
۔ وہ آپ (علیہ السلام) کی طرف سے شک میں پڑے ہوئے،
400
۔ ان کے پاس کوئی (صحیح) تو ہے نہیں ہاں بس گمان کی پیروی ہے،
401
۔ اور یقینی بات ہے کہ انہوں نے آپ کو مار نہیں ڈالا،
402
۔
396
۔ یہ قول کس کا تھا ؟ ظاہر ہے کہ یہود ہی کا تھا، جو اس پر خوش بھی ہوئے تھے، اور اس کا دعوی بھی فخر کے ساتھ کررہے تھے۔ (آیت) ” المسیح۔ رسول اللہ “۔ یہ دونوں الفاظ یہود کے نہیں، وہ انہی دونوں منصبوں یا مسیحیت اور رسالت ہی کے تو منکر تھے، قرآن حمید نے نفس واقعہ کے لحاظ سے ان کا صحیح منصب بیان کردیا۔ قرآن مجید کا یہ اسلوب بیان عام ہے ھو اخبار من اللہ تعالیٰ بصفۃ عیسیٰ (بحر، عن ابن عطیہ) یجوز ان یضع اللہ الذکر الحسن مکان ذکر ھم القبیح فی الحکایۃ عنھم (کبیر، کشاف) یحتمل ان یکون الستنافامن اللہ تعالیٰ بمدحہ (بیضاوی) یحتمل ان اللہ وصفہ بالرسول وان لم یقولوا ذلک (مدارک) (آیت) ” انا قتلنا “۔ قتل کے اصل معنی روح کو جسم سے جدا کردینے کے ہیں، خواہ کسی طریقہ پر ہو۔ اسی کو اردو محاورہ میں ” ختم کردینا “ یا ” کام تمام کردینا “۔ کہتے ہیں۔ اصل القتل ازالۃ الروح عن الجسد (راغب) قتلہ ای اماتہ بضرب اوحجر اوسم او علۃ (تاج) ھو ازالۃ الروح عن الجسد کالموت (ابو البقاء) اور امام قرطبی نے ایک دوسری آیت (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تقتلوالصید “ کے تحت میں لکھا ہے القتل ھو کل فعل یفیت الروح وھو النواع من النحر والذبح والخنق والرضخ وشبہ۔ یہاں اصطلاح فقہ کا قتل مراد نہیں جس کے معنی محض کسی دھا دار آلہ سے ہلاک کرنے کے ہوتے ہیں۔ تاریخ کا بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سزائے موت اگرچہ رومی عدالت سے ملی، اور وہی ملکی عدالت نفاذ سزا پر قادر تھی، لیکن آپ (علیہ السلام) کو سزا دلوانے میں اور آپ کے لیے سزائے موت کا حکم سنوانے میں ہاتھ تمامتر یہود ہی کا کام کررہا تھا۔ اسی لئے قرآن مجید نے بھی، جو تاریخ کی دقیق حقیقتوں کو بھی نظر انداز نہیں ہونے دیتا بالکل صحیح طور پر آپ کے قتل یا اقدام قتل کی ذمہ داری یہود ہی پر رکھی۔ انجیلیں اتنے جزو پر متفق المعنی (بلکہ ایک حد تک متفق اللفظ بھی) ہیں کہ رومی عدالت کا حاکم پیلا طیس آپ (علیہ السلام) کو سزا دینا ہرگز نہیں چاہتا تھا، بلکہ اس سے برابر بچ رہا تھا، یہ یہود ہی تھے، جنہوں نے استغاثہ جھوٹا گڑھا، گواہیاں جھوٹی فراہم کیں، اور بلوہ و فساد کی دھمکی دے دے کر اسے حکم سنانے پر مجبور کردیا، انجیل متی کا ایک مختصر سابیان ملاحظہ ہو :۔ ” جب پیلاطس نے دیکھا کہ کچھ نہیں بن پڑتا، بلکہ الٹا بلوہ ہوا جاتا ہے، تو پانی لے لے کر لوگوں کے روبرو اپنے ہاتھ دھوئے اور کہا میں راستباز کے خون سے بری ہوں، تم جانو۔ سب لوگوں نے کہا کہ اس کا خون ہماری اور ہماری اولاد کی گردن پر۔ اس پر اس نے برابا کو ان کی خاطر چھوڑ دیا اور یسوع کو کوڑے لگوا کر حوالہ کیا تاکہ صلیب دی جائے “۔ (
27
:
24
،
26
) اسی کی تائید دوسری انجیلیں بھی کرتی ہیں، بلکہ لوقا میں تو اتنی تصریح اور زائد ہے کہ حاکم نے ملزم کو سزائے موت سے بچانے کی تین تین بار کوشش کی، لیکن یہود نے ہر دفعہ اس کی بات کو رد کردیا۔ (
23
:
22
) یہ بیانات تو مسیحیوں کے تھے۔ خودیہود کی لکھی ہوئی جو قدیم ترین حیات مسیح دنیائے معلوم میں موجود ہے، یعنی جو زیفس کی اور جس کا ترجمہ انگریزی میں Antiquities of Jewish کے نام سے شائع ہوچکا ہے، اس میں اس واقعہ کو ٖخر کے ساتھ اپنی ہی جانب منسوب کیا ہے۔ (حاشیہ صفحہ
46
) انجیلوں میں جو پیشگوئیاں حضرت مسیح (علیہ السلام) کی زبان سے اپنے قتل ہونے کی بابت منقول ہیں، ان میں بھی ساری ذمہ داری سرداران یہود ہی کے سر ملتی ہے اور رومیوں یا حاکموں کا ذکر نہیں آیا :۔ ” اس وقت سے یسوع اپنے شاگردوں پر ظاہر کرنے لگا کہ مجھے ضرور ہے کہ یروشلم کو جاؤں اور بزرگوں اور سردار کاہنوں اور فقیہوں کی طرف سے بہت دکھ اٹھاؤں اور قتل کیا جاؤں۔ “ (متی۔
16
:
2
1
) ” پھر وہ انہیں تعلیم دینے لگا کہ ضرور ہے کہ ابن آدم بہت دکھ اٹھائے اور بزرگ اور سردار کاہن اور فقیہ اسے رد کریں اور وہ قتل کیا جائے۔ (مرقس
8
:
3
1
) ” ضرور ہے کہ ابن آدم (علیہ السلام) بہت دکھ اٹھائے اور بزرگ اور سردار کاہن اور فقیہ اسے رد کریں اور وہ قتل کیا جائے۔ (لوقا
9
۔
22
)
397
۔ یعنی آپ (علیہ السلام) کا کام تمام کردینا تو الگ رہا یہود تو واقعۃ اتنا بھی نہ کرسکے کہ اس زمانہ میں اس ملک میں جو طریقہ سزائے موت کا تھا اسی تک پہنچ جاتے ! یعنی آپ (علیہ السلام) کو سولی پر چڑھا تک نہ سکے۔ (آیت) ” وما صلبوہ “۔ صلبوا کے اصل معنی محض سولی پر لٹکانے یا چڑھانے کے ہیں، چڑھا کر ختم کردینے کے نہیں۔ ھو تعلیق الانسان للقتل (راغب) اردو میں یہ مفہوم ” سولی دینے “ سے نہیں ” سولی چڑھانے “ ہی سے ادا ہوتا ہے۔ چناچہ شاہ ولی اللہ (رح) نے اپنے فارسی ترجمہ، اور شاہ عبدالقادر (رح) اور علامہ تھانوی (رح) نے اپنے اپنے اردوترجموں میں بھی یہی مفہوم لیا ہے۔
398
۔ یا ” وہ دھوکے میں ڈال دیئے گئے یا ” حقیقت ان پر مشتبہ ہوگئی “۔ یہ شبہ میں کون پڑگئے یا حقیقت کن پر مشتبہ وملتبس ہوگئی ؟ ظاہر ہے کہ مراد وہی یہود یا اعدائے مسیح ہیں جن کا ذکر اوپر سے چلا آرہا ہے۔ کانہ قیل وقع علیھم الشبہ (مدارک) التبس علیھم الامر (بیضاوی) یا یوں کہا جائے کہ شبہ انہیں مقتول سے متعلق ہوا، اور وہ دھوکے میں اس کی شخصیت کے بارے میں پڑگئے۔ شبہ لھم المقتول والمصلوب (جلالین) بہرحال اس پر ہمارے سارے مفسرین کا اتفاق ہے، کہ یہود کو دھوکا ہوا، اور وہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے دھوکے میں کسی اور کو سولی پر چڑھا گئے، لیکن یہ شخص کون تھا، اور دھوکے کی صورت کیا ہوئی، اس کا تصریحی جواب نہ قرآن مجید میں ہے نہ کسی حدیث صحیح میں، اب سوا اس کے چارہ نہیں رہتا کہ تاریخ کی روشنی میں واقعہ کے جزئیات کو ایک ایک کرکے لایا جائے، اس وقت کے پس منظر کو سامنے لایا جائے، اور جو صورت واقعہ نسبۃ قرین قیاس اور مطابق متقضائے حال معلوم ہو، اسی کو ترجیحی طور پر اختیار کیا جائے پہلی بات اس سلسلہ میں یاد رکھنے کے قابل یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یروشلم کے لوگوں سے ملتے جلتے کم تھے، نتیجہ یہ تھا کہ عوام تو عوام، خواص بھی آپ (علیہ السلام) کو پوری طرح پہچانتے نہ تھے۔ چناچہ جب آپ (علیہ السلام) کی گرفتاری کا وقت آیا، تو اس کے لیے اکابر یہود اور متعدد سپاہیوں کا ایک پورا گروہ اس ضرورت کے لیے کافی ثابت نہ ہوا، بلکہ آپ (علیہ السلام) کی شناخت کے لیے آپ (علیہ السلام) ہی کی مختصر سی پارٹی کے ایک منافق وغدار کو ساتھ لینا پڑا۔ یہ ایک خالص تاریخی حقیقت ہے لیکن امام المفسرین امام رازی اس راز سے بھی واقف ہیں۔ فرماتے ہیں۔ والناس ماکانوا یعرفوں المسیح الا بالاسم بانہ کان قلیل المخالطۃ للناس (کبیر) متی اور مرقس دونوں انجیلوں میں ہے کہ گرفتاری کرنے والی پارٹی میں سردار کاہنوں اور قوم کے بزرگوں کی طرف سے ایک ” بڑی بھیڑ تلواریں اور لاٹھیاں لیے ہوئے “ سپاہیوں کی شامل تھی، اس پر بھی گرفتاری اور شناخت کے لیے انہیں یہوداہ منافق کا سہارا ڈھونڈنا پڑا۔ اور انجیل یوحنا میں ہے کہ جب یہ پلٹن اور پیادے وہاں پہنچے تو ” یسوع نے ان سے پھر پوچھا کہ تم کسے ڈھونڈھتے ہو ؟ وہ بولے یسوع ناصری کو، یسوع نے جواب دیا میں تم سے کہہ تو چکا ہوں کہ میں ہی ہوں “۔ (
18
:
3
۔
8
) ” حضرت مسیح (علیہ السلام) “ کا تعظیمی تخیل تو بہت بعد کی پیداوار ہے۔ معاصر مخالفین ومعاندین کی نظر میں تو آپ (علیہ السلام) کی حیثیت صرف یسوع ناصری نامی ایک بدنام وغیرہ معروف مجرم کی تھی، وہ سامنے موجود تھا، اور پھر بھی کوئی پہچان نہیں رہا تھا، حالانکہ سب آئے تھے اسی کی تلاش میں ! دوسری بات یہ خیال رکھنے کی ہے کہ حضرت (علیہ السلام) کو، یابالفاظ یہود یسوع ناصری کو تبدیل ہئیت میں خاص ملکہ تھا، انجیلوں میں حضرت (علیہ السلام) کی اسی قدرت کو بہ طور معجزہ کے بیان کیا گیا ہے۔ ” چھ دن کے بعد یسوع نے پطرس اور یعقوب اور اس کے بھائی یوحنا کو ہمراہ لیا، اور انہیں ایک اونچے پہاڑ پر الگ لے گیا۔ اور ان کے سامنے اس کی صورت بدل گئی، اور اس کا چہرہ سورج کی مانند چمکا “۔ (متی۔
17
:
1
،
2
) ” جب وہ دعا مانگ رہا تھا تو ایسا ہوا کہ اس کے چہرہ کی صورت بدل گئی، اور اس کی پوشاک سفید براق ہوگئی “۔ (لوقا
9
:
29
) نیز مرقس
9
:
2
) ۔ یہ معجزہ تھا یا نہ تھا، یہ ایک الگ بحث ہے۔ بہرحال آپ (علیہ السلام) کو نفس قدرت اس پر حاصل تھی، تیسرے، اس تاریخی حقیقت کا استحضار ذہن میں کرلیاجائے، کہ ملک (شام و فلسطین) کی آبادی اس وقت اسرائیلیوں (یہود) کی تھی اور اسی برادری کے ایک فرد آپ (علیہ السلام) بھی تھے۔ لیکن ملک پر حکومت رومیوں کی تھی، اور اعلی عہدہ دار اور پولیس اور فوج رومیوں پر مشتمل تھی، اور یہ رومی نہ صرف مشرک یعنی دین و عقیدہ میں اسرائیلیوں سے مختلف تھے، بلکہ صورت شکل، وضع و لباس، زبان ومعاشرت وغیرہ میں بھی ان سے ایسے ہی الگ تھے جیسے آج انگریز ہندوستانیوں سے مختلف وممتاز ہیں۔ اور جس طرح آج ہندوستانیوں کو سب فوجی گورے یکسان اور گوروں کو سارے ” کالے “ ایک سے معلوم ہوتے ہیں، بدیسی رومی سپاہیوں اور فوجیوں کی نظر میں سب یہود یہود، اور اسرائیلی اسرائیلی بھی ایک ہی تھے، چوتھی کڑی اس سلسلہ کی یہ ملائیے، کہ جس مقام پر رومی عدالت تھی، وہاں سے سرکاری سولی گھر فاصلہ پر تھا، اور سولی یا صلیب جس کی شکل انگریزی چھاپہ کے بڑے حرف (ٹی) T کے مشابہ یاریلوے سگنل سے ملتی جلتی ہوتی تھی، وہ سولی گھر میں پوری گڑی ہوئی نہیں ہوتی تھی، صرف اس کا سیدھا اور کھڑا ستون زمین میں گڑا ہوارہتا تھا، باقی جو لکڑی اس کے اوپر آڑی آڑی پڑتی تھی، اس کے لیے قاعدہ یہ تھا کہ وہ مجرم کو عدالت سے اپنے اوپر لاد کر سولی گھرتک لانی پڑتی تھی، یہاں تک جو کچھ عرض ہوا، اس پر ایک نظر دوبارہ کرکے امور ذیل کو بھی نظر کے سامنے لے آئیے ‘۔ (
1
) حکم جب سنایا گیا ہے، جمعہ کا دن تھا، اور دن آخر ہورہا تھا، اور یہود کو جلدی کتھی کہ ہر طرح فراغت پاکر شاموں شام گھر واپس آجائیں۔ جمعہ کی شام ہی سے ان کا یوم السبت شروع ہوجاتا تھا، اور یوم السبت کے حدود کے اندر مجرم کی سزادہی وغیرہ بھی ممنوع تھی، اور پھر یہود کا اہم تہوار، عید فسخ (Passover) بھی شروع ہورہی تھی، غرض یہود کو اس کی بہت ہی عجلت تھی کہ کسی طرح ان کا یہ مجرم جلد سے جلد سولی پاکر شام سے قبل ہی دفن ہوجائے۔ (
1
) لاغروناتوان مجرم (یعنی خود حضرت مسیح علیہ السلام) کے لیے ممکن نہ تھا کہ اتنی وزنی لکڑی لاد کر اتنا فاصلہ یہود کی خاطر خواہ تیزی سے طے کرسکیں۔ خصوصا جب کہ یہودی بچے اور شریر قسم کے یہود خود ہی قدم قدم پر انہیں چھیڑتے جاتے، اور ان کا راستہ کھوٹا کرتے جاتے۔ اب اس ساری صورت حال کو اس تفصیل کے ساتھ پیش نظر رکھ کر فرمائیے کہ رومی سپاہی، جو مجرم، بلکہ مجرموں کو (آپ کے ساتھ سولی کے لیے دو مجرم اور بھی تھے) حراست میں لیے ہوئے تھے۔ اور یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ وہ رعایا میں سے نہیں، بلکہ حاکم قوم کے افراد تھے، ایسے موقع پر کیا کرتے ؟ خود تو اپنے اوپر وہ سولی والی لکڑی کا بوجھ لادنے سے رہے۔ انہوں نے وہی کیا جو ان کی جگہ پر کوئی بھی ان جیسا انسان کرتا، انہوں نے مجمع ہی میں سے کسی بدتمیز یہودی کو پکڑلیا، اور صلیب کی لکڑی اسی پر لاد دی ! انگریز گارد ایسے موقع پر، یعنی کسی ہندوستانی مجرم حراست میں لیے جاتا ہوتا تو کیا کرتا ؟ یہی کرتا کہ بھیڑ میں کسی ہندوستانی ہی کو پکڑ لیتا اور اس پر لاد دیتا۔ یہ محض قیاس وقرینہ نہیں، انجیلوں میں اتنے جزو کی تصریح موجود ہے :۔ انہیں شمعون نام ایک کرینی آدمی ملا۔ اسے بیگار پکڑا کہ اس کی صلیب اٹھائے “۔ (متی۔
27
:
32
) ” اور شمعون نام ایک کرینی آدمی اسکندر اور روقس کا باپ دہات سے آتے ہوئے ادھر سے گزرا۔ انہوں نے اسے بیگار میں پکڑا کہ اس کی صلیب اٹھائے “۔ (مرقس۔
15
:
2
1
) ” اور جب اس کو لیے جاتے تھے، تو انہوں نے شمعون نام ایک کرینی کو جو دیہات سے آتا تھا، پکڑکے صیلب اسی پر رکھ دی کہ یسوع کے پیچھے پیچھے چلے “ (لوقا
23
:
26
) جب یہ مجمع (جو یقیناً کوئی باقاعدہ ومنظم مجمع نہیں، بلکہ عوام کی ایک بھیڑ تھا) اس افراتفری کے ساتھ ایک دوسرے کو ریلتا پیلتا، مجرم سے چھیڑچھاڑ کرتا، اس سے تمسخر کرتا ہوا، سولی گھر کے پھاٹک پر پہنچا، تو رومی پویس گارڈ جو ساتھ تھا، اب اس کی ڈیوٹی ختم ہوگئی، اب یہاں سے جیل کے سنتریوں کا عمل ودخل شروع ہوتا ہے۔ وہ کیا جانیں، کہ یسوع ناصری کس کا نام ہے، وہ اپنے حسب دستور مجرم اسی کو سمجھے جس کے اوپر صلیب لدی ہوئی تھی،۔۔ ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کو مستحضر کرلیجے کہ جیل کے رومی سپاہیوں کے لئے سب یہودی اجنبی ہی تھے اور اس لیے باہمد گرہم شکل اور یکساں، انہیں ایک اسرائیلی (یسوع ناصری) اور دوسرے اسرائیلی (شمعون کرینی) کے درمیان اشتباہ نہایت آسان تھا، انہیں دونوں کے درمیان کوئی نمایاں فرق ہی نہیں نظر آسکتا تھا، شمعون نے یقیناً واویلا مچایا ہوگا، لیکن ادھر مجمع کا شور وہنگامہ ادھر جیل کے سپاہیوں کی اسرائیلیوں کی زبان سے ناواقفیت، اور پھر سولی پر لٹکا دینے کی جلدی، اسی افراتفری کے عالم میں اسی شمعون کو پکڑ کر سولی پر چڑھا دیا گیا، اور وہ چیختا چلاتا رہا، حضرت مسیح (علیہ السلام) قدرۃ اس ہڑبونگ میں دشمنوں کے ہاتھ سے رہا ہوگئے اور دشمن دھوکے میں پڑے ہوئے ٹامک ٹوئیے مارتے رہ گئے ! (آیت) ” ولکن شبہ لھم “۔ یہ عقیدہ نو ایجاد نہیں، خود مسیحیوں ہی کا ایک قدیم ترین فرقہ باسلید یہ (Basilidian) کے نام سے گزرا ہے (بانی فرقہ کا سال وفات (
140
ء۔ ) وہ اسی عقیدہ کا قائل تھا۔ اور کھلم کھلا کہتا کہ مصلوب حضرت مسیح (علیہ السلام) نہیں ہوئے۔ بلکہ شمعون کروینی ہوا ہے۔ قرآن مجید نے اسی عقیدہ کی تصویب کی طرف اشارہ کردیا ہے۔ لیکن پولوس (متوفی
65
ء۔ ) کے اثر سے جو مسیحیت چلی اور پھیلی، اس کی تو بنیاد ہی عقیدۂ کفارہ پر ہے۔ یعنی اس عقیدہ پر کہ ابن اللہ نے یا خود خدائے مجسم ہوکر، اور صلیب پر جانکنی کی تکلیف اٹھا کر اور اپنی جان دے کر سب کی طرف سے مخلوق کے گناہوں کا کفارہ ادا کردیا۔ اس لیے یہ رواجی مسیحیت تو بغیر مصلوبیت مسیح (علیہ السلام) کو مانے اور فرض کیے ہوئے ایک قدم بھی آگے نہیں چل سکتی۔ اس لیے لامحالہ اس پولوسی اور کلیسائی مسیحیت نے کل قدیم صحیح العقیدہ مسیحی فرقوں کو ” بدعتی “ اور ” مبتدع “ قرار دے کر کلیسا سے خارج کردیا، اور خود ہی کہنے لگے جو دشمنان عیسیٰ (علیہ السلام) یعنی یہود پہلے ہی سے کہہ رہے تھے، یعنی یہی کہ عیسیٰ (علیہ السلام) صلیب پر وفات پاگئے ! گوظاہر ہے کہ اس اشتراک عقیدہ میں نیتیں دونوں کی بالکل الگ الگ ہیں، یہود وفات عیسیٰ (علیہ السلام) کو موقع تحقیر و اہانت میں بیان کرتے ہیں، اور مسیحی بعینہ اسی واقعہ سے آپ (علیہ السلام) کی عظمت پر دلیل لاتے ہیں، لیکن نفس عقیدہ بہرحال دونوں میں مشترک ہے۔ اور بڑے تاسف اور قلق کا مقام ہے کہ آج بیسویں صدی عیسوی میں بعض ” مسلمان “ فرقے بھی اسی گمراہی کی طرف واپس جارہے ہیں۔ اور طرفہ یہ ہے کہ وفات مسیح (علیہ السلام) کے اس باطل اور خلاف تحقیق عقیدہ کو ” روشن خیالی “ کا تمغہ اور تحقیق کا پروانہ سمجھ رہے ہیں !
399
۔ (آپس میں، کہ کوئی آپ کو مرتبہ الوہیت پر پہنچائے دیتا ہے اور کوئی مرتبہ عبدیت کا ملہ سے بھی نیچے اتارے لاتا ہے) (آیت) ” فیہ “ میں ضمیر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی جانب ہے ای فی شان عیسیٰ (علیہ السلام) (روح) ای فی عیسیٰ (علیہ السلام) (مدارک) ای فی عیسیٰ (علیہ السلام) (جلالین) (آیت) ” الذین اختلفوا فیہ “۔ سے مراد یہود ونصاری نعوذ باللہ آپ (علیہ السلام) کی خدائی کا کلمہ پڑھ رہا ہے۔ المراد من الموصول مایعم الیہود والنصاری جمیعا (روح) قیل الضمیر عائد علی الیھود والنصاری (بحر)
400
۔ (آیت) ” شک “ کی بہترین تفسیر مفسرتھانوی (رح) نے کی ہے، یعنی قول بلادلیل، یعنی نظریہ پر نظریہ قائم کرتے چلے جاتے ہیں اور کوئی بات بنائے نہیں بنتی۔ مسیحی مسیحیوں سے دست و گریبان ہیں اور یہود یہودیوں سے، اندر ہی اندر خدا معلوم کتنے فرقے ہوگئے ہیں۔ اور ایک دوسرے کو جھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں۔
401
۔ (اور گمان یا اٹکل حقیقت رسی میں کہاں تک کافی ہوسکتی ہے ! ) مسیحیوں نے تو غضب ہی کر رکھا ہے، اپنے سارے مذہب یعنی الوہیت مسیح، وفات مسیح، احیاء مسیح (علیہ السلام) کی بنیاد تمامتر ظن ووہم پر رکھی ہے۔ (آیت) ” لہم “ میں ضمیر (آیت) ” ان الذین اختلفوا “ کی طرف ہے، یعنی وہ لوگ جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے باب میں جھگڑ رہے ہیں۔ یہود نصاری اور ان کے اندرونی فرقے (آیت) ” من علم “۔ علم سے مراد علم صحیح، علم ثابت بالدلائل ہے۔ اور من زائد ہے۔ من زائدۃ (قرطبی) چون نہ دیدند حقیقت رہ افسانہ زدند : یہود اور مسیحی دونوں قوموں کی روایتوں اور مکاتبوں کی بالکل صحیح تصویر قرآن مجید نے ان مختصر وجامع الفاظ میں کھینچ دی ہے۔ لکن یتبعون فیہ الظن الذی تخیلوہ (جلالین) ظن یہاں مقابل علم کے ہے۔ یعنی ایسا قول جو بالکل بلادلیل ہو اور جس کا مبنی نہ کوئی نص ہو نہ اس سے کوئی استنباط۔۔۔ یعنی کج فہموں نے آیتوں کے الفاظ سے نفی قیاس پر جو دلیل قائم کرنا چاہی ہے وہ بےاصل ہے قیاس فقہی تو خود ایک دلیل شرعی ہے استباط واستخراج کے مرادف۔
402
۔ (آیت) ” وما قتلوہ یقیناً “۔ میں ” یقیناً “۔ نفی قتل کی تاکید کے لیے ہے۔ کذلک ما قتلوہ حقا (کشاف) ماقتلوہ حقا فیجعل یقیناً تاکیدا لقولہ وما قتلوہ (مدارک) ای حق انتفاہ قتلہ حقا (مدارک) حال موکدۃ لنفی القتل (جلالین) عقیدۂ وفات مسیح (علیہ السلام) یا قتل مسیح (علیہ السلام) چونکہ بہت بڑی غلط فہمی یا گمراہی کا باعث ہے اور دنیا کی دو بڑی قومیں یہود اور مسیحی اسی غلطی میں مبتلا ہیں۔ اس لیے قرآں مجید کو اسکی تردید کی ضرورت بھی بہت وضاحت اور تاکید کے ساتھ پیش آئی۔
Top