Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 158
بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْهِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا
بَلْ : بلکہ رَّفَعَهُ : اس کو اٹھا لیا اللّٰهُ : اللہ اِلَيْهِ : اپنی طرف وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَزِيْزًا : غالب حَكِيْمًا : حکمت والا
بلکہ آپ (علیہ السلام) کو اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا،403 ۔ اور اللہ بڑا قوت والا ہے، بڑا حکمت والا ہے،404 ۔
403 ۔ (آیت) ” الیہ “۔ اپنی طرف یا اپنے آسمان کی طرف، قرآن مجید میں اس طرح کے حذف مضاف کی مثالیں بہ کثرت ملتی ہیں۔ اور جس طرح ” اللہ نے اپنی طرف بلالیا ہے مراد “۔ آخرت کی طرف بلالینا سمجھی جاتی ہے، اسی طرح عربی اور اردو دونوں محاروہ میں اللہ کی طرف اٹھالینے سے مراد آسمان کی طرف اٹھالینے سے ہے۔ یحتمل رفعہ الی السماء (راغب) ای الی السماء واللہ تعالیٰ متعال عن مکان (قرطبی) الی السماء (مدارک) الی سمائی (بحر) (آیت) ” رفعہ “۔ رفع کے اصلی معنی رفع جسمانی یا رفع مادی ہی کے ہیں۔ الرفع یقال فی الاجسام الموضوعۃ اذا اعلی تھا عن مقرھا (راغب) مجازی معنی، یعنی رفع مراتب کے بھی جائز ہیں۔ ای رفعہ من حیث التشریف (راغب) لیکن حقیقت کو چھوڑ کر مجاز اختیار کرنے کی کوئی وجہ قوی موجود ہونی چاہیے، اور وہ یہاں موجود نہیں، بعض نادان اور نوخیز فرقوں کا یہ استدلال کہ چونکہ رفع کی نسبت اللہ تعالیٰ کی جانب ہے، اس لیے رفع جسمانی تو مراد ہو ہی نہیں سکتا، اور اس لیے لامحالہ رفع مجازی یعنی قرب ومنزلت ہی مراد ہوگی، قرآن فہمی سے بعد پر مبنی ہے۔ آخر قرآن مجید ہی میں اس طرح کی آیات موجود ہیں یا نہیں :۔ (آیت) ” ومن یخرج من بیتہ مھاجر الی اللہ “ یہاں مہاجرت الی اللہ سے کسی نے مہاجرت الی دار الاسلام یا مہاجرت الی المدینہ نہیں لی ہے ؟ یا پھر (آیت) ” قال انی ذاھب الی ربی “۔ یہاں کون نہیں سمجھتا کہ ذہاب الی رب سے مراد ذہاب الی الشام مراد ہے ؟ وقس علی ھذا “۔ امام رازی (رح) نے خوب لکھا ہے کہ تعظیم وتشریف کے جس سیاق میں یہاں ذکر رفع الی اللہ کا ہے، وہ خود اس امر کی دلیل ہے کہ یہ رفع کوئی امتیازی اور مخصوص چیز ہے، متقین وصالحین کے عام دخول جنت اور وہاں کی لذات جسمانی وحسی سے الگ۔ رفعہ الیہ اعظم فی باب الثواب من الجنۃ ومن کل ما فیھا من اللذات الجسمانیۃ (کبیر) رفع جسمانی کا عقیدہ لازمہ ایمان اور شرط اسلام ہو یا نہ ہو، بہرحال ظاہر قرآن سے قریب تر ضرور ہے۔ 404 ۔ صف عزیز لا کر یہ یاد دلا دیا کہ وہ اپنے نبی (علیہ السلام) کو بچا لینے پر بھی قادر، اسے اٹھا لینے پر بھی قادر، رفع جسمانی ورفع روحانی دونوں پر قادر۔ صفت حکیم لاکر ادھر اشارہ کردیا کہ اس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے دشمنوں کے ساتھ جو معاملہ کیا وہی عین مقتضائے حکمت تھا۔
Top