Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 54
اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ۚ فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا
اَمْ : یا يَحْسُدُوْنَ : وہ حسد کرتے ہیں النَّاسَ : لوگ عَلٰي : پر مَآ اٰتٰىھُمُ : جو انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل فَقَدْ اٰتَيْنَآ : سو ہم نے دیا اٰلَ اِبْرٰهِيْمَ : آل ابراہیم الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحِكْمَةَ : اور حکمت وَاٰتَيْنٰھُمْ : اور انہیں دیا مُّلْكًا : ملک عَظِيْمًا : بڑا
کیا یہ لوگوں پر حسد کررہے ہیں ان چیزوں کے باعث جو انہیں اللہ نے اپنے فضل سے دے رکھی ہیں،170 ۔ سو ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت دی ہے اور ہم نے انہیں بڑا اقتدار بھی دیا ہے،171 ۔
170 ۔ (مثلا نعمت نبوت) (آیت) ” الناس “۔ کے لفظی معنی تو ” لوگوں “ کے ہیں لیکن یہاں مراد عرب یا بنی اسمعیل یا خود رسول اللہ ﷺ اور مومنین ہیں۔ الناس ھنا العرب حسد تھا بنواسرائیل (بحر، عن قتادہ) حسدت الیھود قریشا لان النبوۃ فیھم “۔ (قرطبی عن الضحاک) المراد ھھنا الرسول ومن معہ من ال مومنین (کبیر) یہود کو اصلی خلش اسی کی تھی کہ انبیاء تو ہمیشہ اسرائیلیوں میں ہوئے ہیں، یہ ایک عرب کو کیسے نبوت مل گئی۔ (آیت) ” اتھم اللہ من فضلہ “۔ مراد نبوت ہے۔ قتادہ وابن جریج تابعین سے یہی معنی مروی ہیں۔ معنی الفضل فی ھذا الموضع النبوۃ التی فضل اللہ بھا محمد اوشرف بھا العرب (ابن جریر، عن قتادہ، وابن جریج) اولی التاویلین فی ذلک بالصواب قول قتادہ وابن جریج الذی ذکر ناہ قبل (ا بن جریر) 171 ۔ (آیت) ” ال ابرھیم “ اور اس نسل ابراہیمی کی دو شاخیں ہیں۔ بنی اسرائیل اور بنی اسمعیل۔ یہاں یہود کی یاد لایا گیا ہے کہ ہماری نعمتوں کے وعدے تو کل نسل ابراہیم (علیہ السلام) سے ہیں نہ کہ اس کی ایک شاخ سے۔ پھر تم تنہا اپنے ہی کو ان نعمتوں کا حق دار کیسے سمجھنے لگے ہو۔ اور جب ایک اسمعیلی کو یہ نعمتیں مل رہی ہیں تو تمہیں اس پر حسد یا حیرت کیوں ہے ؟ (آیت) ” الکتب والحکمۃ “ دونوں روحانی نعمتیں ہیں۔ ان کا ذکر ایک ساتھ کیا ہے اور ملک عظیم دنیوی نعمت ہے اس کا ذکر الگ کرکے کیا ہے۔
Top