Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 62
فَكَیْفَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ ثُمَّ جَآءُوْكَ یَحْلِفُوْنَ١ۖۗ بِاللّٰهِ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّاۤ اِحْسَانًا وَّ تَوْفِیْقًا
فَكَيْفَ : پھر کیسی اِذَآ : جب اَصَابَتْھُمْ : انہیں پہنچے مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت بِمَا : اس کے سبب جو قَدَّمَتْ : آگے بھیجا اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ ثُمَّ : پھر جَآءُوْكَ :وہ آئیں آپ کے پاس يَحْلِفُوْنَ : قسم کھاتے ہوئے بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنْ : کہ اَرَدْنَآ : ہم نے چاہا اِلَّآ : سوائے (صرف) اِحْسَانًا : بھلائی وَّتَوْفِيْقًا : اور موافقت
پھر کیسی گزرتی ہے جب ان پر کوئی مصیبت آپڑتی ہے اپنے ہی ہاتھوں،189 ۔ پھر آپ کے پاس آتے ہیں اللہ کی قسم کھاتے ہوئے کہ ہمارا مقصد تو محض بھلائی اور مصالحت تھا،190 ۔
189 ۔ مثلا یہی کہ ان کی خیانت یا منافقت کا راز کھل گیا، اور اس پر انکی دھڑ پکڑ شروع ہوگئی۔ 190 ۔ یعنی جب ان کی دورنگی کھل جاتی ہے اور باز پرس شروع ہوجاتی ہے تو قسمیں کھا کھا کر یقین دلانے لگتے ہیں کہ ہم بھی تو مومن ہیں۔ اور ہمیں رسول اللہ ﷺ کی حاکمیت سے کچھ انکار تھوڑے ہی ہے۔ ہم تو محض نیک نیتی اور فریقین کی خیر خواہی کے خیال سے مقدمہ کو دوسری جگہ لے گئے تھے۔ آیتوں کی شان نزول میں آتا ہے کہ ایک یہودی اور ایک نام کے مسلمان یعنی منافق کے درمیان کسی معاملہ میں جھگڑا ہوا۔ یہودی نے رسول اللہ ﷺ کی دیانت پر اعتماد کرکے کہا کہ چلو وہیں تصفیہ کرائیں۔ منافق کا پہلو کمزور تھا۔ بولا نہیں بلکہ سردار یہود کعب بن اشرف کے پاس چلیں۔ بالآخر مقدمہ رسول اللہ ﷺ ہی کی خدمت میں آیا اور یہاں سے فیصلہ یہودی کے موافق ہوا کہ وہی اس معاملہ میں حق پر تھا۔ منافق نے کہا کہ چلو اب عمر ؓ کے پاس چلیں وہ غالبا اپنے دل میں یہ سمجھا کہ عمر ؓ کی شدت وغلظت کافروں پر بہت بڑھی ہوئی ہے اور میں ظاہر میں تو بہرحال مسلمان ہوں۔ وہاں میری ہی چل جائے گی، آیات میں تلمیح اسی واقعی کی جانب ہے۔ منافقین اپنا یہ عذر پیش کرتے تھے کہ ہم کسی اور کے پاس مقدمہ کچھ اس خیال سے تھوڑے ہی لے جاتے ہیں کہ فیصلہ کا حق رسول اللہ ﷺ کے سوا کسی اور کو حاصل ہے، بلکہ ہم تو اس لئے لے جاتے ہیں وہاں حق و انصاف و قانون سے زیادہ فریقین کی مصلحت اور دلجوئی پر نظر رہے گی۔
Top