Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 66
وَ لَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِیَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِیْلٌ مِّنْهُمْ١ؕ وَ لَوْ اَنَّهُمْ فَعَلُوْا مَا یُوْعَظُوْنَ بِهٖ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَ اَشَدَّ تَثْبِیْتًاۙ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّا كَتَبْنَا : ہم لکھ دیتے (حکم کرتے) عَلَيْهِمْ : ان پر اَنِ : کہ اقْتُلُوْٓا : قتل کرو تم اَنْفُسَكُمْ : اپنے آپ اَوِ اخْرُجُوْا : یا نکل جاؤ مِنْ : سے دِيَارِكُمْ : اپنے گھر مَّا فَعَلُوْهُ : وہ یہ نہ کرتے اِلَّا : سوائے قَلِيْلٌ : چند ایک مِّنْھُمْ : ان سے وَلَوْ : اور اگر اَنَّھُمْ : یہ لوگ فَعَلُوْا : کرتے مَا : جو يُوْعَظُوْنَ : نصیحت کی جاتی ہے بِهٖ : اس کی لَكَانَ : البتہ ہوتا خَيْرًا : بہتر لَّھُمْ : ان کے لیے وَاَشَدَّ : اور زیادہ تَثْبِيْتًا : ثابت رکھنے والا
اور اگر ہم نے ان پر فرض کردیا ہوتا کہ اپنے آپ کو مارڈالو یا یہ کہ اپنے وطن سے نکل جاؤ تو اس کو ان میں سے نہ کرتے کوئی مگر بجز تھوڑے سے لوگوں کے،197 ۔ اور اگر یہ (لوگ) وہ کر ڈالتے جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو ان کے حق میں یہ بہتر بھی ہوتا اور انہیں ثابت قدم رکھنے والا بھی،198 ۔
197 ۔ (اور وہی تھوڑے مومن کامل ہوتے) (آیت) ” ان اقتلوا انفسکم اواخرجوا من دیارکم “۔ ایک معنی میں تو دونوں حکم اب بھی موجود ہیں یعنی جہاد و قتال اور ترک وطن یا ہجرت اپنے اپنے موقع پر اور تحقق شرائط پر اب بھی واجب ہیں۔ یہاں مراد یہ ہے کہ اگر یہ احکام خود بھی مقصود بالذات ہوتے اور قتال و ہجرت ہر حال میں فرض ہوتے۔ (آیت) ’ کتبنا علیھم۔ قلیل منھم “۔ یہ علیھم اور منھم “۔ میں ضمیر جمع غائب کس کی جانب ہے ؟ جائز ہے کہ منافقین کی جانب ہو۔ والضمیر قیل یعود علی المنافقین (بحر) لیکن بہتر یہ ہے کہ مطلق انسانوں یا الناس کی جانب مانی جائے۔ لوکتب اللہ علی الناس ماذکر (کبیر) یخبر تعالیٰ عن اکثر الناس (ابن کثیر) (آیت) ” مافعلوہ “۔ ضمیر حکم کی جانب ہے والضمیر للمکذب ودل علیہ کتبنا (بیضاوی) (آیت) ’ الاقلیل “۔ کی ایک قراءت بجائے رفع کے نصب کے ساتھ (آیت) ” الا قلیلا “۔ بھی آئی ہے۔ لیکن ائمہ نحو نے ترجیح اسی مشہور قرأت کو دی ہے۔ 198 ۔ (ایمان کے معاملہ میں) یعنی اگر شک، تذبذب، تزلزل کی راہ چھوڑ کر اطاعت رسول میں یکسوئی کے ساتھ لگ جائیں تو انہیں ایمان میں ثبات و استقلال اور اس کی برکتیں از خود نصیب ہونے لگیں۔ ذکر انہی منافقین اور کمزور ایمان والوں کا چل رہا ہے۔ (آیت) ” فعلوا ما یوعظون بہ “۔ یعنی اللہ و رسول اللہ ﷺ کے احکام کی اطاعت اگر انہوں نے بہ دل وجان کرلی ہوتی۔ ای ما یؤمرون بہ من التوبۃ والاخلاص (ابن عباس) من متابعۃ الرسول ﷺ ومطاوعتہ طوعا ورغبا (بیضاوی) (آیت) ” لکان خیرالھم “۔ یعنی دنیوی واخروی انفرادی واجتماعی ہر اعتبار سے ان کے فلاح کی صورت پیدا ہوجاتی۔ (آیت) ” تثبیتا “۔ پہلے یہ بتایا کہ احکام دین پر اگر عمل کرتے تو یہ چیز انہی کے کام آتی اور انہی کے حق میں بہتر ہوتی۔ اب یہ ارشاد ہورہا ہے کہ احکام پر عمل کرنے سے خود قوت ایمانی، ضعیف سے قوی اور قوی سے قوی تر ہوجاتی ہے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ تجربہ سے ثابت ہے کہ دین کا کام کرتے رہنے سے اعتقاد ویقین کی باطنی کیفیت کو بھی ترقی ہوتی رہتی ہے۔
Top