Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 75
وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَا١ۚ وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا١ۙۚ وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِیْرًاؕ
وَمَا : اور کیا لَكُمْ : تمہیں لَا تُقَاتِلُوْنَ : تم نہیں لڑتے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ وَ : اور الْمُسْتَضْعَفِيْنَ : کمزور (بےبس) مِنَ : سے الرِّجَالِ : مرد (جمع) وَ النِّسَآءِ : اور عورتیں وَ الْوِلْدَانِ : اور بچے الَّذِيْنَ : جو يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں (دعا) رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اَخْرِجْنَا : ہمیں نکال مِنْ : سے ھٰذِهِ : اس الْقَرْيَةِ : بستی الظَّالِمِ : ظالم اَهْلُھَا : اس کے رہنے والے وَاجْعَلْ : اور بنا دے لَّنَا : ہمارے لیے مِنْ : سے لَّدُنْكَ : اپنے پاس وَلِيًّۢا : دوست (حمایتی) وَّاجْعَلْ : اور بنادے لَّنَا : ہمارے لیے مِنْ : سے لَّدُنْكَ : اپنے پاس نَصِيْرًا : مددگار
اور تمہیں کیا (عذر) ہے کہ تم جنگ نہیں کرتے ہو اللہ کی راہ میں،210 ۔ اور ان لوگوں کے لئے جو کمزور ہیں مردوں میں سے اور عورتوں اور لڑکوں (میں سے) ،211 ۔ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم کو اس بستی سے باہر نکال جس کے باشندے (سخت) ظالم ہیں،212 ۔ اور ہمارے لئے اپنی قدرت سے کوئی دوست پیدا کردے، اور ہمارے لئے اپنی قدرت سے کوئی حمایتی کھڑا کردے،213 ۔
210 ۔ (آیت) ” فی سبیل اللہ “۔ یہ اعلاء کلمۃ اللہ تو خود جہاد کا ایک مستقل محرک اور قوی داعی ہے۔ (آیت) ” مالکم “۔ استفہام سے مقصود ترغیب وتحریص ہے اور خطاب مومنین صادقین سے ہے۔ خطاب للمامورین بالقتال علی طریقۃ الالتفات مبالغۃ فی التحریص والحث علیہ وھو المقصود من الاستفھام (روح) 211 ۔ یہ دوسرا داعی جہاد کے لئے ارشاد ہوا۔ کمزوروں کی دستگیری ونصرت اور مظلوموں کی اعانت اور انہیں ظالم کافروں کے پنجہ سے رہائی دلانا بجائے خود مقاصد جہاد میں سے ہے۔ (آیت) ” والمستضعفین “۔ کا عطف لفظ اللہ پر ہے یعنی فی سبیل اللہ والمستضعفین۔ زجاج اور زہری سے یہی ترکیب منقول ہے۔ عطف علی اسم اللہ عزوجل ای وفی سبیل المستضعفین وھذا اختیار الزجاج وقالہ الزھری (قرطبی) 212 ۔ (آیت) ” ھذہ القریۃ “۔ مراد مکہ کا شہر اور مکہ کی حکومت ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ القریۃ ھنا مکۃ باجماع من المتاولین (قرطبی) (آیت) ” الظالم اھلھا “۔ مکہ والے ظالم دہرے معنی میں تھے۔ ایک تو مسلمانوں پر طرح طرح کے ظلم وستم ڈھا رہے تھے۔ دوسری طرف شرک کر کر کے خود اپنی جانوں پر بھی ظلم کررہے تھے۔ ووصف اھلھا بالظلم اما لا شراکھم واما کما حصل منہم من شدۃ الوطاۃ علی المومنین واذلالھم (بحر) لاجل انھم کانوا یؤذون المسلمین ویوصلون الیھم انواع المکارہ (کبیر) بالشرک الذی ھو ظلم عظیم وباذیۃ المومینن ومنعھم عن الھجرۃ (روح) 213 ۔ آیت سے ظاہر ہورہا ہے کہ بچوں، عورتوں، مردوں کی ایک خاصی تعداد اسلام لاچکی ہے۔ مگر یہ لوگ سرداران قریش کے تشدد کے مقابلہ میں اپنے کو بےبس پا رہے ہیں۔ نہ دفع ظلم ہی پر قادر ہیں اور ہجرت پر۔ یہاں مناجات اور فریاد انہی لوگوں کی زبان سے ادا ہورہی ہے۔ آیت سے یہ بھی ظاہر ہورہا ہے کہ ظلم وشقاوت سے بچے، عورتیں، بوڑھے کوئی بھی محفوظث نہ تھے۔ (آیت) ” من لدنک “۔ لفظی معنی ہیں ” اپنے پاس سے “ اردو محاورہ میں ایسے موقو پر ” اپنی قدرت سے “ آتا ہے۔ یعنی غیب سے اس کا سامان کردے۔ (آیت) ” ولیا “۔ ایسا دوست وہمدرد جو اس مصیبت میں ہمارے ساتھ رہے۔ ہم سے ہمدردی وغمخواری کرے۔ (آیت) ” نصیرا “۔ ایسا حمایتی جو ان ظالموں سے ہمیں نجات دلائے۔
Top