Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 86
وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا
وَاِذَا : اور جب حُيِّيْتُمْ : تمہیں دعا دے بِتَحِيَّةٍ : کسی دعا (سلام) سے فَحَيُّوْا : تو تم دعا دو بِاَحْسَنَ : بہتر مِنْھَآ : اس سے اَوْ : یا رُدُّوْھَا : وہی لوٹا دو (کہدو) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلٰي : پر (کا) كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز حَسِيْبًا : حساب کرنے والا
اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر طور پر سلام کرو یا اسی کو لوٹا دو بیشک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے،244 ۔
244 ۔ (اس لئے معاشرت کے ان جزئیات کو حقیر سمجھ کر نظر انداز نہ کردیاجائے) سلام کے جواب میں سلام تو بہر حال واجب ہے۔ اس کے بعد اختیار دو دیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ جواب سلام، سلام سے بہتر ہو۔ دوسرے یہ کہ ایسا ہی ہو۔ بہترین قول بعض صحابہ اور تابعین کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ سلام کرنے والا اگر مسلمان ہے تو اس کا جواب زیادتی کے ساتھ دیا جائے اور اگر غیر مسلم ہے تو اس کے الفاظ دہرائے جائیں۔ ردوھا بافضل منھا فی الزیادۃ علی اھل دینکم وملتکم اور دوھا مثل ما سلم علیکم علی غیر اھل دینکم (ابن عباس) (آیت) ” اذا حییتم بتحیۃ “۔ یعنی جب تمہیں سلام کیا جائے طریق مشروع پر۔ سلام کے شرعی طریقوں کی تفصیل کتب فقہ میں ملے گی، (آیت) ” تحیۃ “۔ حیاک اللہ کے اصل معنی تو زندگی سے خبر دینے کے ہیں۔ پھر دعاء زندگی کے معنی ہوگئے۔ ذلک اخبارثم یجعل دعاء (راغب) اہل عرب جب آپس میں ملتے تھے تو اس کلمہ دعا کو استعمال کرتے تھے۔ اسلام نے اسے سلام کے معنی میں کردیا۔ فلما جاء الاسلام ابدل ذلک بالسلام فجعلوا التحیۃ اسما للاسلام (کبیر)
Top