Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 95
لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَ الْمُجٰهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ١ؕ فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِیْنَ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَةً١ؕ وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى١ؕ وَ فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِیْنَ عَلَى الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًاۙ
لَا يَسْتَوِي : برابر نہیں الْقٰعِدُوْنَ : بیٹھ رہنے والے مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (مسلمان) غَيْرُ : بغیر اُولِي الضَّرَرِ : عذر والے (معذور) وَ : اور الْمُجٰهِدُوْنَ : مجاہد (جمع) فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنی جانیں فَضَّلَ اللّٰهُ : اللہ نے فضیلت دی الْمُجٰهِدِيْنَ : جہاد کرنے والے بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنی جانیں عَلَي : پر الْقٰعِدِيْنَ : بیٹھ رہنے والے دَرَجَةً : درجے وَكُلًّا : اور ہر ایک وَّعَدَ : وعدہ دیا اللّٰهُ : اللہ الْحُسْنٰي : اچھا وَ : اور فَضَّلَ : فضیلت دی اللّٰهُ : اللہ الْمُجٰهِدِيْنَ : مجاہدین عَلَي : پر الْقٰعِدِيْنَ : بیٹھ رہنے والے اَجْرًا عَظِيْمًا : اجر عظیم
مسلمانوں میں سے بلاعذر (گھر) بیٹھ رہنے والے اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہوسکتے،274 ۔ اللہ نے جان ومال سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر درجہ میں فضیلت دے رکھی ہے اور بھلائی کا وعدہ تو اللہ نے سب (ہی) سے کر رکھا ہے،275 ۔ اور اللہ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اجر عظیم کے لحاظ سے برتری دے رکھی ہے،276 ۔
274 ۔ (اللہ کے ہاں درجہ اور مرتبہ میں) (آیت) ” اولی الضرر “ کے لفظی معنی تو ہوئے ” بےدکھ والے “ لیکن یہاں ضرر مرض سے کہیں زیادہ وسیع معنی میں ہے اور ہر قسم کے عذر ومانع کو شامل ہے اور اہل الضرر اہل العذر کے مرادف ہے۔ قال العلماء اھل الضررھم اھل الاعذار (قرطبی) الضرر النقصان سواء کان بالعمی اوالعرج اوالمرض اوکان بسبب عدم الاھبۃ (کبیر) (آیت) ” القعدون غیر اولی الضرر “۔ کی تقدیر کلام یوں ہے۔ القاعدون الذین ھم غیر اولی الضرر (قرطبی) مطلب صاف ہے اللہ کی راہ میں جان ومال سے جہاد کرنے والے اور بلاعذر گھر میں بیٹھے رہنے والے اللہ کے ہاں فضیلت ومقبولیت میں برابر نہیں ہوسکتے۔ یہیں سے یہ مطلب بھی صاف ہوگیا کہ جہاد فرض عین نہیں، فرض کفایہ ہے۔ اگر فرض عین ہوتا یعنی ہر ہر فرد پر فرض ہوتا تو ان بیٹھ رہنے والوں اور نہ شریک ہونے والوں پر یقیناً عتاب ووعید کے الفاظ وارد ہوتے رہتے۔ فیہ دلالۃ علی ان الجھاد لیس بفرض عین بل ھو فرض کفایۃ (ابن کثیر) قال الفقھاء فیہ دلیل علی ان فرض الجھاد علی الکفایۃ ولیس علی کل احد بعینہ (کبیر) وھذا دلیل علی ان فرض الجھاد علی الکفایۃ ولیس علی کل احد بعینہ (جصاص) فرقہ شیعہ نے آیت سے استدلال یہ کیا ہے کہ حضرت علی (رح) کی افضلیت حضرت ابوبکر ؓ پر ظاہر ہورہی ہے اس لیے کہ حضرت علی ؓ نے جہاد و قتال حضرت ابوبکر ؓ سے کہیں زیادہ کیا ہے اور اس کو آیت میں معیار فضیلت قرار دیا گیا ہے۔ استدلال باطل ہے۔ اگر مطلق قتل کفار ہی معیار فضلیت ہوتاتوبہ قول امام رازی (رح) حضرت علی ؓ خود رسول اللہ ﷺ سے بھی افضل و اشرف ہوتے۔ حالانکہ اس کے قائل شیعہ بھی نہیں۔ معلوم ہوا کہ افضلیت کلی کے اجزاء اور بھی متعدد ہیں۔ مثلا تبلیغ دین میں مصروفیت، اقامت احکام و استحکام ملت میں مشغولیت وغیرہا۔ اور ان سارے امور میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ ٹھیک اپنے آقا سردار کے نقش قدم پر چلنے والے تھے۔ چناچہ حضرت عثمان ؓ ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیر ؓ ، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ، جیسے جلیل القدر صحابی بڑی تعداد میں آپ ہی کی سعی وتبلیغ سے ایمان لائے اور پھر یہ بھی ہے کہ حضرت علی ؓ کے مجاہدانہ جوہر مدینہ میں آکر چمکے۔ جب اسلام کو یک گونہ غلبہ حاصل ہوچکا تھا، برخلاف اس کے ابوبکر صدیق ؓ نے دین کی گرانبہا خدمتیں اس وقت انجام دینا شروع کر تھیں جب ملت غایت ضعف و پستی میں تھی اور امت ہر طرف سے نرغہ اعداء میں محصور ! (کبیر) 275 ۔ (مجاہدین سے ان کے جہاد کی بنا پر۔ اور قاعدین سے ان کے دوسرے اعمال حسنہ کی بنا پر) (آیت) ” کلا “۔ (یعنی مجاہدین اور قاعدین دونوں سے) ای کل فریق من القاعدین والمجاھدین (قرطبی) (آیت) ” الحسنی “۔ یعنی جنت اور آخرت کی نعمتیں۔ المثوبۃ الحسنی وھی الجنۃ (بیضاوی) الجنۃ والجزاء الجزیل (ابن کثیر) (آیت) ” المجھدین والقعدین “۔ دونوں لفظوں میں جھاد اور قعود کے عموم مفہوم کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ بیان یقیناً میدان جہاد میں جانے والوں اور میدان جنگ سے رہ جانے والوں کا ہے۔ لیکن لفظ جہاد کو قتال کے معنی میں مخصوص و محدود کردینا صحیح نہیں۔ بلکہ نصرت دین کی ہر سعی وفکر اس کے اندر آجاتی ہے۔ (جس کی ایک فرد یقیناً قتال بھی ہے) علی ہذا قعود یا خانہ نشینی کے تحت میں ہر امر شریعت میں سستی آجاتی ہے۔ اور اسی کی ایک اہم فرد مثال سے جی چرانا بھی ہے) گویا فضیلت دین کے ہر کام کرنے والے کو نہ کرنے والے پر حاصل ہے۔ اور اس سے یہ شبہ مٹ گیا کہ لشکر قتال کا ایک ایک سپاہی ہر غیر مقاتل سے افضل ہے خواہ وہ غیر مقاتل کسی پایہ و مرتبہ کا محدث، مفسر، فقیہ، متکلم وصوفی وغیرہ خادم دین ہو۔ 276 ۔ اہل لطائف نے یہاں یہ نکتہ لکھا ہے کہ المجاھدون باموالھم وانفسھم (جان ومال سے جہاد کرنے والوں) کا ذکر تو اوپر آچکا ہے اب یہاں ذکر مطلق مجاہدین کا بغیر کسی قید کے ہے۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی کا رخ تمام ترغیر اللہ سے اللہ کی طرف پھیر لیں اور یہ مجاہدات صوفیہ کا اعلیٰ مقام ہے۔ وجب ان یکون المراد منہ من کان مجاھدا علی الاطلاق فی کل الامور وھو اشرف انواع المجاھدۃ وحاصل ھذا الجھاد صرف القلب من الالتفات الی غیر اللہ الی الاستغراق فی طاعۃ اللہ (کبیر)
Top