Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 103
مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِیْرَةٍ وَّ لَا سَآئِبَةٍ وَّ لَا وَصِیْلَةٍ وَّ لَا حَامٍ١ۙ وَّ لٰكِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ وَ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
مَا جَعَلَ : نہیں بنایا اللّٰهُ : اللہ مِنْۢ بَحِيْرَةٍ : بحیرہ وَّلَا : اور نہ سَآئِبَةٍ : سائبہ وَّلَا : اور نہ وَصِيْلَةٍ : وصیلہ وَّلَا حَامٍ : اور نہ حام وَّلٰكِنَّ : اور لیکن الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا يَفْتَرُوْنَ : وہ بہتان باندھتے ہیں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر الْكَذِبَ : جھوٹے وَاَكْثَرُهُمْ : اور ان کے اکثر لَا يَعْقِلُوْنَ : نہیں رکھتے عقل
اللہ نے نہ بحیرہ کو مشروع کیا ہے اور نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو نہ حامی کو،317 ۔ البتہ جو لوگ کافر ہیں وہی اللہ پر جھوٹ جوڑتے رہتے ہیں۔ اور ان میں سے اکثر عقل سے کام نہیں لیتے،318 ۔
317 ۔ (آیت) ” ما جعل اللہ “۔ یعنی اللہ نے ان چیزوں کو مشروع نہیں کیا۔ والمعنی ما سمی اللہ ولا سن ذلک حکما ولا تعبدبہ شرعا (قرطبی) یہ سب اصطلاحیں عرب جاہلیت کی ہیں۔ (آیت) ” بحیرۃ “۔ وہ اونٹنی ہے جو دس بچہ جنتی اور ان میں کا آخری نرہوتا۔ اس کا کان چیر کر اسے سانڈ کی طرح آزاد چھوڑ دیا جاتا اور کوئی کام اس سے نہ لیا جاتا (آیت) ” سآئبۃ “۔ وہ اونٹنی ہے جو کسی دیوتا کے نام پر سانڈ کی طرح آزاد چھوڑ دی جاتی اور اسے چارہ پانی سے نہ روکا جاتا۔ (آیت) ” وصیلۃ “۔ یہ بھی اونٹنی ہی کی ایک قسم ہے مادہ بچہ جننے والی۔ اسے بھی دیوتاؤں کے نام پر آزاد چھوڑ دیا جاتا۔ (آیت) ’ حامی “۔ نراونٹ کی ایک قسم ہے جس کو آزاد چھوڑ دیا جاتا۔ اہل شرک کی رسمیں ہر ملک میں ملتی جلتی سی ہیں۔ یہاں یہ بتایا ہے کہ اس قسم کی گھڑی ہوئی رسمیں اور ایسے جانوروں کا ادب واحترام ہرگز مشروع نہیں۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت میں ابطال ہے اہل جاہلیت کی اس بدعت کا کہ بعض چیزوں کو غیر اللہ سے نامزد کردیتے تھے جیسا کہ اب بھی بعض جہلاء ارواح طیبہ سے تقرب حاصل کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ 318 ۔ (اور سمجھتے رہتے ہیں کہ خدا ان لغویات و خرافات سے خوش ہوگا) ای ما شرع اللہ ھذہ الاشیاء ولاھی عندہ قربۃ ولکن المشرکون افتروا ذلک وجعلوہ شرعا لھم وقربۃ یتقربون بھا الیہ (ابن کثیر) (آیت) ” یتفرون علی اللہ الکذب “۔ اہل شرک اپنے عقائد وغیرہ دوسرے مسائل کی طرح رسوم کے باب میں بھی افتراء علی اللہ پر بڑے جری وبے باک ہوتے ہیں اور گھڑنے والے عموما مشرکین کے خواص و اکابر ہوتے ہیں۔ (آیت) ” اکثرھم لا یعقلون “۔ یہ کو رانہ تقلید کرنے والے مشرکین کے عوام ہوتے ہیں۔ اور انہی کی تعداد بڑی ہوئی ہے۔ والمعنی ان الرؤسا یتفرون علی اللہ الکذب فاما الاتباع والعوام فاکثرھم لایعقلون (کبیر)
Top