Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 107
فَاِنْ عُثِرَ عَلٰۤى اَنَّهُمَا اسْتَحَقَّاۤ اِثْمًا فَاٰخَرٰنِ یَقُوْمٰنِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِیْنَ اسْتَحَقَّ عَلَیْهِمُ الْاَوْلَیٰنِ فَیُقْسِمٰنِ بِاللّٰهِ لَشَهَادَتُنَاۤ اَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا وَ مَا اعْتَدَیْنَاۤ١ۖ٘ اِنَّاۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ
فَاِنْ : پھر اگر عُثِرَ : خبر ہوجائے عَلٰٓي : اس پر اَنَّهُمَا : کہ وہ دونوں اسْتَحَقَّآ : دونوں سزا وار ہوئے اِثْمًا : گناہ فَاٰخَرٰنِ : تو دو اور يَقُوْمٰنِ : کھڑے ہوں مَقَامَهُمَا : ان کی جگہ مِنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ اسْتَحَقَّ : حق مارنا چاہا عَلَيْهِمُ : ان پر الْاَوْلَيٰنِ : سب سے زیادہ قریب فَيُقْسِمٰنِ : پھر وہ قسم کھائیں بِاللّٰهِ : اللہ کی لَشَهَادَتُنَآ : کہ ہماری گواہی اَحَقُّ : زیادہ صحیح مِنْ : سے شَهَادَتِهِمَا : ان دونوں کی گواہی وَمَا : اور نہیں اعْتَدَيْنَآ : ہم نے زیادتی کی اِنَّآ : بیشک ہم اِذًا : اس صورت میں لَّمِنَ : البتہ۔ سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
پھر اگر خبر ہوجائے کہ وہ دونوں (وصی) حق بات دباگئے،328 ۔ تو دو گواہ ان کی جگہ اور مقرر ہوں ان لوگوں میں سے جن کا حق دبا ہے (میت کے) قریب ترلوگوں میں سے،329 ۔ اور یہ دونوں اللہ کی قسم کھائیں کہ ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ درست ہے اور ہم نے زیادتی نہیں کی ہے ورنہ بیشک ہم ہی ظالم ٹھیریں گے،330 ۔
328 ۔ یعنی ظاہرا ان گواہوں کا کاذب وخائن ہونا معلوم ہوجائے۔ (آیت) ” عثر علی “۔ یعنی اگر اس کی خبر ہوگئی۔ اگر یہ کھل گیا۔ عثر علی کذا ای اطلع علیہ (قرطبی) آیت کی ترکیب حضرت عمر ؓ جیسے اہل زبان صحابی اور زجاج جیسے نحوی کو دشوار معلوم ہوئی ہے اور دوسرے مفسرین کرام کا ذکر ہی نہیں۔ قال عمر ھذہ الایۃ اعضل ما فی ھذہ السورۃ من الاحکام وقال الزجاج اصعب ما فی القران من الاعراب (قرطبی) 329 ۔ اب مقدمہ کا رخ بدل گیا، اوصیاء جو پہلے مدعاعلیہ تھے ورثہ کے مقابل، اب خود مدعی ہوگئے۔ اور ورثہ جو اوصیاء کی خیانت کا دعوی لے کر آئے تھے اب مدعا علیہ بن گئے یعنی فی الایمان اوفی الشھادۃ (قرطبی) (آیت) ” یقومن مقامھما “۔ اگر دو کے بجائے ایک ہی گواہ ہو تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ (آیت) ” من الذین استحق علیھم الاولین “۔ یعنی ان لوگوں میں سے جنہیں مال وصیت پہنچتا تھا۔ یعنی میت کے قریب تر اور مال کے وارث۔ روی عن سعید بن جبیر قال معنی الاولیان بالمیت یعنی الورثۃ (جصاص) الاقربان الی المیت (کبیر) (آیت) ” اولین “۔ آیت میں بدل ہے فاخران سے۔ والمعنی عند اھل التفسیر من الذین استحقت علیھم الوصیۃ الاولیان بدل من قولہ فاخر ان قالہ ابن السری واختارہ النحاس (قرطبی) امام ابوحنفیہ (رح) نے اسی آیت سے ذمیوں کے آپس کے معاملات میں ان کے قبول شہادت کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ استدل ابوحنیفۃ بھذہ الایۃ علی جواز شھادۃ الکفار من اھل الذمۃ فی ما بینھم قال ومعنی اواخران من غیرکم ای من غیر اھل دینکم فدل علی جواز شھادۃ بعضھم علی بعض (قرطبی) (آیت) ” ضربتم فی الارض “۔ ضرب فی الارض کے معنی محاورہ میں سفر کرنے کے آتے ہیں (مطلق ضرب کے معنی سفر کرنے اور چلنے کے نہیں جیسا کہ آج کل کے ایک نادان فرقہ نے اپنی تفسیروں میں لکھ دیا ہے بلکہ جب فعل ضرب کا صلہ فی کے ساتھ آئے، اس وقت یہ معنی ہوجاتے ہیں) ای سافرتم (قرطبی) پوری تقدیر کلام یوں سمجھی گئی ہے۔ ان انتم ضربتم فی الارض فاصابتکم مصیبۃ الموت فاوصیتم الی اثنین عدلین فی ظنکم ودفعتم الیھما ما معکم من المال ثم متم وذھبا الی ورثتکم بالترکۃ فارتابوا فی امر ھما وادعوا علیھما خیانۃ فالحکم ان تحبسوھما من بعد الصلاۃ ای تستوثقوا منھما (قرطبی) اگر تم سفر کررہے ہو اور اس حال میں تمہیں موت آگئی اور تم نے اپنے خیال میں دومتدین شخصوں کو اپنا وصی مقرر کرکے مال ان کے سپرد کردیا اور تمہاری وفات ہوگئی، اور دونوں وصی تمہارا ترکہ لے کر تمہارے وارثوں کے پاس گئے اور ان لوگوں کو ان گواہوں کے بیان میں شک پیدا ہوا اور ان دونوں پر انہوں نے دعوی دائر کردیا تو اب چاہیے کہ نماز کے بعد ان دونوں گواہوں کو روک لو اور ان سے پوچھ پاچھ کرلو۔ 330 ۔ یہ سب تعلیم اس غرض سے مل رہی ہے کہ یہ گواہ بھی اپنی ذمہ داری کا خوب اچھی طرح احساس و استحضار کرلیں (آیت) ” وما اعتدینا “۔ یعنی ہم نے حق وصداقت سے ذرا تجاوز نہیں کیا ہے، نہ مال کے مطالبہ میں اور نہ اوصیاء پر الزام خیانت لگانے میں۔ ای مااعتدینا فی طلب ھذا المال وفی نسبتھم الی الخیانۃ (کبیر)
Top