Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 111
وَ اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَى الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَ بِرَسُوْلِیْ١ۚ قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ اشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَوْحَيْتُ : میں نے دل میں ڈال دیا اِلَى : طرف الْحَوَارِيّٖنَ : حواری (جمع) اَنْ : کہ اٰمِنُوْا بِيْ : ایمان لاؤ مجھ پر وَبِرَسُوْلِيْ : اور میرے رسول پر قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے وَاشْهَدْ : اور آپ گواہ رہیں بِاَنَّنَا : کہ بیشک ہم مُسْلِمُوْنَ : فرمانبردار
اور (وہ وقت قابل ذکر ہے) جب میں نے حواریوں کو حکم دیا کہ ایمان لاؤ مجھ پر اور میرے پیغمبر پر، تو وہ بولے کہ ہم ایمان لے آئے اور آپ شاہد رہیے کہ ہم (پورے) فرمانبردار ہیں،344 ۔
344 ۔ یا یہ کہ ” ہم پورے مسلم ہیں۔ “ ” مسلم “۔ کا لفظ کوئی نوپیدا اصطلاح نہیں، انبیاء کے ماننے والے تو ہمیشہ اور ہر نبی کے دور میں میں مسلم ہی کہلائے ہیں۔ (آیت) ” واذاوحیت الی الحوارین “۔ حواری۔ پر حاشیہ سورة آل عمران میں گزر چکا۔ وحی کا اطلاق عربی زبان میں بہت وسیع ہے۔ وحی کے معنی قلب میں القاء یا الہام کے بھی ہوتے ہیں۔ الوحی کل شی دللت بہ من کلام او کتاب او اشارۃ اور سالۃ (ابن قتیبہ) والوحی فی کلام العرب معناہ الالھام۔۔۔ اے الھمتھم وقذفت فی قلوبھم (قرطبی) المراد بذلک الوحی الالھام والالقاء فی القلب (کبیر) قیل المراد بالوحی الیھم الھامہ تعالیٰ ایاھم (روح) عن السدی یقول قذفت فی قلوبھم (ابن جریر) قیل المراد بھذا الوحی وحی الھام (ابن کثیر) وحی کے یہ معنی تو لیکر آگے کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ لیکن وحی کو امر کے مرادف ہی قرار دیا گیا ہے۔ قال ابو عبیدۃ اوحیت بمنعی امرت وقیل اوحیت ھنا بمعنی امرتھم (قرطبی) وجاء استعمال الوحی بمعنی الامر فی کلام العرب کما قال الزجاج (روح) اس صورت میں صرف اتنا محذوف ماننا پڑے گا کہ ” اے عیسیٰ (علیہ السلام) تمہارے ذریعہ سے “ ای امرتھم فی الانجیل علی لسانک (روح) یحتمل ان یکون المراد اذ اوحیت الیہم بواسطتک (ابن کثیر)
Top