Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 112
اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ١ؕ قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اِذْ قَالَ : جب کہا الْحَوَارِيُّوْنَ : حواری (جمع) يٰعِيْسَى : اے عیسیٰ ابْنَ مَرْيَمَ : ابن مریم هَلْ : کیا يَسْتَطِيْعُ : کرسکتا ہے رَبُّكَ : تمہارا رب اَنْ : کہ وہ يُّنَزِّلَ : اتارے عَلَيْنَا : ہم پر مَآئِدَةً : خوان مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان قَالَ : اس نے کہا اتَّقُوا اللّٰهَ : اللہ سے ڈرو اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اور (وقت قابل ذکر ہے) جب حواریوں نے کہا کہ اے عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کیا آپ کا پروردگار اس کو جائز رکھتا ہے کہ ہم پر کھانا آسمان سے اتارے،345 ۔ (اس پر عیسیٰ (علیہ السلام) نے) کہا کہ اللہ سے ڈرو ! اگر ایمان رکھتے ہو،346 ۔
345 ۔ (آیت) ” یعیسی ابن مریم “۔ اس طرز خطاب سے صاف ظاہر ہے کہ حواری بھی آپ (علیہ السلام) کو ابن مریم ہی سمجھتے تھے۔ ابن اللہ کا کوئی شائبہ بھی ان کے خیال میں نہ تھا۔ (آیت) ” ھل یستطیع ربک “۔ حواری بہرحال صاحب ایمان تھے۔ سوال سے ان کی مراد بہ قول مفسر تھانوی (رح) یہی ہوسکتی ہے کہ کوئی امر، مثلا اس کا خلاف حکمت ہونا، اس سے مانع تو نہیں ! المراد من ھذا الکلام استفھام ان ذلک ھل ھو جائز فی محکمۃ ام لا (کبیر) قیل ھذہ الاستطاعۃ علی ما تقتضیۃ الحکمۃ والارادۃ فکانھم قالوا ھل ارادۃ اللہ تعالیٰ و حکمتہ تعلقت بذلک اولا (روح) (آیت) ” مآئدۃ من السمآء “۔ مائدہ کے معنی طعام کے بھی ہیں اور خوان طعام کے بھی۔ المائدۃ فی المشھور الخوان الذی علیہ الطعام وتطلق المائدۃ علی نفس الطعام ایضا (روح) المائدۃ الطبق الذی علیہ الطعام ویقال لکل واحدۃ منھما مائدۃ (راغب) یہاں مراد کھانے ہی سے لی گئی ہے۔ قیل اتدعواطعاما (راغب) 346 ۔ یعنی بلاضرورت خرق عادت کی طلب و فرمائش آداب ایمانی کے بالکل خلاف ہے۔ اتقوا اللہ فی تعیین لمعجزۃ فانہ جار مجری التعنت والتحکم (کبیر) اتقوا اللہ من امثال ھذا السؤال واقتراح الایات (روح) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اس میں زجر ہے کہ اہل اللہ میں خوارق کو تلاش کیا جائے۔
Top