Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 113
قَالُوْا نُرِیْدُ اَنْ نَّاْكُلَ مِنْهَا وَ تَطْمَئِنَّ قُلُوْبُنَا وَ نَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَ نَكُوْنَ عَلَیْهَا مِنَ الشّٰهِدِیْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا نُرِيْدُ : ہم چاہتے ہیں اَنْ : کہ نَّاْكُلَ : ہم کھائیں مِنْهَا : اس سے وَتَطْمَئِنَّ : اور مطمئن ہوں قُلُوْبُنَا : ہمارے دل وَنَعْلَمَ : اور ہم جان لیں اَنْ : کہ قَدْ صَدَقْتَنَا : تم نے ہم سے سچ کہا وَنَكُوْنَ : اور ہم رہیں عَلَيْهَا : اس پر مِنَ : سے الشّٰهِدِيْنَ : گواہ (جمع)
وہ لوگ بولے کہ ہم تو (بس) یہ چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور اپنے دلوں کو مطمئن کرلیں اور یقین کرلیں کہ آپ ہم سے سچ بولے ہیں اور اہم اس پر گواہی دینے والوں میں سے ہوجائیں،347 ۔
347 ۔ حواری اپنی صفائی میں یہ تقریر کررہے ہیں کہ سوال سے ہماری غرض کوئی بےادبی نہیں مقصود صرف اس قدر تھا کہ (آیت) ” ناکل منھا۔ ہم اس آسمانی غذا سے کچھ کھائیں اور اس سے لذت و برکت حاصل کریں، اکل تبرک (روح) (آیت) ” وتطمئن قلوبنا “۔ اور اس خرق عادت کے مشاہدہ سے ہمارا ایمان اور ترقی حاصل کرے۔ بازدیاد الیقین کماقال عطاء (روح) (آیت) ” ونعلم “۔ اور ہم مشاہدہ کی مزید قوت کے ساتھ یقین حاصل کرلیں۔ علم مشاھدۃ وعیان علی ما قدمناہ (روح) (آیت) ” ان قدصدقتنا کہ آپ اپنے دعوی نبوت میں بالکل سچے ہیں۔ ای انہ قد صدقتنا فی ادعاء النبوۃ (روح) ونکون علیھا من الشھدین “۔ اور اس کے بعد ہم دوسروں کے سامنے بھی گواہی دے سکیں کہ ہاں ہم نے اپنی آنکھوں سے ایسا معجزہ دیکھا ہے اور اسی طرح ان کی ہدایت کا ذریعہ بھی بن جائیں، عند من لم یحضرھا من بنی اسرائیل (روح) (آیت) ” نرید “۔ ارادہ یا تو اپنے عام معنی میں ہے، یا شوق و تمنا کے معنی میں۔ والا رادتۃ اما معناہ الظاہر اوبمعنی المحبۃ (روح)
Top