Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 26
قَالَ فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْهِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً١ۚ یَتِیْهُوْنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ فَلَا تَاْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ۠   ۧ
قَالَ : اس نے کہا فَاِنَّهَا : پس یہ مُحَرَّمَةٌ : حرام کردی گئی عَلَيْهِمْ : ان پر اَرْبَعِيْنَ : چالیس سَنَةً : سال يَتِيْھُوْنَ : بھٹکتے پھریں گے فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَلَا تَاْسَ : تو افسوس نہ کر عَلَي : پر الْقَوْمِ : قوم الْفٰسِقِيْنَ : نافرمان
ارشاد ہوا کہ اچھا تو وہ ملک ان پر چالیس سال کے لیے حرام کردیا گیا یہ لوگ زمین پر بھٹکتے پھریں گے،102 ۔ سو آپ (اس) بےحکم قوم پر (ذرا) غم نہ کیجئے،103 ۔
102 ۔ (اور اسی جزیرہ نمائے سینا میں ٹھوکریں کھاتے رہیں گے) (آیت) ” محرمۃ علیھم “۔ یعنی ان کے لیے تکوینی طور پر اب یہ ممکن ہی نہ ہوگا کہ 40 سال سے قبل اس ارض مقدس میں داخل ہوسکیں اور جو نعمت انہیں تھوڑی سی جدوجہد کے بعد فی الفور ملی جارہی تھی، اب اس کیے لیے انہیں 40 سال کا انتظار کرنا ہوگا، اور ان کی موجودہ نسل کا بڑا حصہ اسی انتظار میں ختم ہوجائے گا۔ (آیت) ” کتب اللہ لکم “۔ میں ان سے جو وعدہ تھا وہ بالکل مطلق اور غیر مشروط صورت میں نہ تھا وہ مشروط تھا ان کی جدوجہد کے ساتھ۔ والمراد بقولہ کتب اللہ لکم ای بشرط ان تجاھدوا اھلھا فلما ابوالجھاد قیل فانھا محرمۃ علیہم (مدارک) ینبغی ان یکون اللہ قد جعلھا علی شریطۃ القیام بطاعتہ واتباع امرہ فلما عصوا حرمھم ایاھا (جصاص) توریت میں اس مقام پر ہے :۔ ” مجھے اپنی حیات کی قسم کہ ساری زمین خداوند کے جلال سے معمور ہوگی کہ وہ سب لوگ جنہوں نے میری شوکت اور میرے معجزے جو میں نے مصر میں اور اس بیابان میں ظاہر کیے دیکھے اب تک مجھے اس مرتبہ آزماتے اور میری آواز پر کان نہ دھرتے وہ اس زمین کو جس کی بابت میں نے ان کے باپ دادوں سے قسم کی تھی نہ دیکھیں گے بلکہ کوئی ان میں سے جنہوں نے مجھے غصہ دلایا اسے نہ دیکھے گا “۔ (گنتی۔ 14:2 1، 22) ” مجھے اپنی حیات کی قسم جیسا تم نے مجھے سنا کے کہا ہے میں تم سے ویسا ہی کروں گا، تمہاری لاشیں اور ان سب کی جو تم میں شمار کیے گئے ان کے کل جمع کے مطابق 20 برس والے سے لے کے اوپر والے تک جنہوں نے میری شکایتیں کیں، اس بیابان میں گریں گے “۔ (گنتی 14:28، 29) ” تم جو ہو تمہاری لاشیں اس بیابان ہی میں گریں گی اور تمہارے لڑکے اس دشت میں چالیس برس تک بھٹکتے پھریں گے۔ اور تمہاری برگشتگی کے اٹھانے والے ہوں گے “۔ (گنتی۔ 14:23) ” ان دونون کے شمار کے موافق جن میں تم اس زمین کی جاسوسی کرتے تھے جو چالیس دن ہیں، دن پیچھے ایک سال ہوگا، سو تم چالیس برس تک اپنے گناہ کو اٹھاتے رہوگے، تب تم میری عہد شکنی کو جان لوگے۔ میں نے جو خداوند ہوں کہا ہے کہ میں اس سارے خبیث گروہ سے جو میری مخالفت پر جمع ہیں، ایسا ہی کروں گا۔ اس دشت میں وہ بربات ہوجائیں گے اور یہیں ہلاک ہوں گے “ (گنتی۔ 14:34، 35) عصر حاضر ایک فرنگی ماہر اثریات سرچارلس مارسٹن کے تخمینہ کے مطابق یہ زمانہ 2440 ؁ ق۔ م اور 1400 ؁ ق، م کے درمیان کا ہے (آیت) ” اربعین “۔ فعل حرم کا ظرف ہے۔ اربعین ظرف التحریم (مدارک) 103 ۔ پیغمبر آخر پیغمبر ہوتے ہیں، رحمت و شفقت کے پتلے، عفو وکرم کے مجسمے۔ کہاں خود ہی تو دعا کی تھی کہ نافرمان قوم کو سزا ملے، اور کہاں اب جو سزا، وہ بھی صرف دنیوی، ملنے لگی تو لگا خود آپ (علیہ السلام) ہی کا دل پسیجنے اور ان لوگوں پر غم کرنے عین اسی وقت حکم ہوا کہ حکمت کاملہ میں ایسے نافرمانوں کے لیے سزا یہی مناسب ہے اور آپ ان پر غم نہ کیجئے خطاب موسیٰ (علیہ السلام) سے ہے، جیسا کہ جمہور مفسرین کا قول ہے، اور سیاق خود اسی کا مقتضی ہے، فالخطاب لموسی (علیہ السلام) کما ھو الظاھر والیہ ذھب اجلۃ المفسرین (روح)
Top