Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 27
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ١ۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ١ؕ قَالَ لَاَقْتُلَنَّكَ١ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ
وَاتْلُ : اور سنا عَلَيْهِمْ : انہیں نَبَاَ : خبر ابْنَيْ اٰدَمَ : آدم کے دو بیٹے بِالْحَقِّ : احوال واقعی اِذْ قَرَّبَا : جب دونوں نے پیش کی قُرْبَانًا : کچھ نیاز فَتُقُبِّلَ : تو قبول کرلی گئی مِنْ : سے اَحَدِهِمَا : ان میں سے ایک وَلَمْ يُتَقَبَّلْ : اور نہ قبول کی گئی مِنَ الْاٰخَرِ : دوسرے سے قَالَ : اس نے کہا لَاَقْتُلَنَّكَ : میں ضرور تجھے مار ڈالونگا قَالَ : اس نے کہا اِنَّمَا : بیشک صرف يَتَقَبَّلُ : قبول کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ مِنَ : سے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
اور آپ انہیں آدم (علیہ السلام) کے دونوں بیٹوں کا قصہ ٹھیک ٹھک پڑھ سنائیے،104 ۔ (یہ اس وقت ہوا) جب دونوں نے ایک نیاز پیش کی،105 ۔ ان میں سے ایک کی تو قبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی،106 ۔ (اس پر وہ دوسرا) بولا کہ میں تجھ کو قتل کرکے رہوں گا،107 ۔ (پہلے نے) کہا اللہ تو متقین کا (عمل) قبول کرتا ہے،108 ۔
104 ۔ (اے ہمارے پیغمبر ! ) (آیت) ” علیہم “ َ میں ضمیر کس طرف ہے ؟ اہل کتاب، خصوصا معاندین اہل کتاب کی طرف ہونا تو بالکل ظاہر ہے۔ واتل علی اھل الکتاب (کبیر) ای اقصص علی ھولاء البغاۃ الحسدۃ (ابن کثیر) واتل علی ھولاء الیھود الذین ھموا ان یبسطوا ایدیھم الیکم (ابن جریر) لیکن عام نوع انسانی بھی مراد ہوسکتی ہے۔ واتل علی الناس (کبیر) قصہ کا مقصد دو امور کی تعلیم دینا ہے، ( 1) ایک یہ کہ نسب کی بزرگی مطلق کام نہیں آتی، مقبول صرف وہی ہوتا ہے جو حکم کا مطیع ہوتا ہے۔ (2) دوسرے یہ کہ انسان حسد سے متاثر ہو کر کیسی کیسی شیطانی حرکتیں کر گزرتا ہے۔ (آیت) ” ابنی ادم “۔ مراد قابیل وہابیل ہیں، یا بہ اصطلاح توریت قائن وہابل۔ قابیل بڑے تھے، ہابیل چھوٹے، حسب تصریح توریت قابیل کاشتکار تھے اور ہابیل بھیڑ بکری کے چرواہے یا گلہ بان۔ (آیت) ” بالحق “۔ تقدیر کلام یوں ہے۔ متلبسا بالحق، تلاوۃ متلبسۃ بالحق والصحۃ (کشاف) عجب نہیں مقصود یہ ظاہر کرنا ہو کہ قرآن کی یہ بیان کی ہوئی روداد بالکل سچ ہی سچ ہے، توریت وغیرہ کی روایتوں کی طرح یہ قصہ بھی حق و باطل کی ملاوٹ نہیں رکھتا، محقق رازی (رح) نے ایک پہلو اور بھی رکھا ہے۔ یعنی یہ قرآنی حکایت، دوسری قرآنی حکایتوں کی طرح ہدایت کا سبق لینے کے لیے ہے۔ جاہلیت جدید وجاہلیت قدیم کی طرح قصہ محض قصہ کی غرض سے، آرٹ محض آرٹ کی غرض سے۔ قرآن مجید کا مقصود نہیں ہوسکتا۔ ای لیعتبروا بہ لا لیحملوہ علی اللعب والباطل مثل کثیر من الاقاصیص التی لافائدۃ فیھا وانماھی لھو الحدیث (کبیر) اور یہ بات اسی ایک حکایت کے ساتھ خاص نہیں، قرآن مجید کی ساری حکایتوں اور قصوں سے مقصود یہی عبرت، موعظت وہدایت ہے وھذا یدل علی ان المقصود بالذکر من الاقاصیص والقصص فی القرن العبرۃ لا مجرد الحکایۃ (کبیر) 105 ۔ (اللہ کے حضور میں) (آیت) ” قربانا “۔ قربانی یہاں اصطلاحی معنی میں یعنی ذبیحہ کے مرادف نہیں، بلکہ لفظی معنی اور وسیع مفہوم میں ہے، نذر ونیاز کے مفہوم میں ہے۔ القربان ما یتقرب بہ الی اللہ (راغب) القربان اسم لما یتقرب بہ الی اللہ تعالیٰ من ذبیحۃ اوصدقۃ (کبیر) القربان مایقصد بہ القرب من رحمۃ اللہ تعالیٰ من اعمال البر (جصاص) قربان اسم جنس ہے۔ واحد وجمع دونوں موقعوں پر اسی صورت سے آتا ہے۔ اسم جنس فھو یصلح للواحد والعدد (کبیر) 106 ۔ (اس لیے کہ وہ مخلصانہ نہ تھی) روایتوں میں آتا ہے کہ چھوٹے بھائی ہابیل کی نذر مخلصانہ تھی، اس نے اپنے گلے کی بہترین بھیڑ پیش کردی تھی، وہ قبول ہوگئی بڑے بھائی قابیل نے اپنے کھیت کی پیداوار کا ناقص حصہ پیش کیا، وہ قبول نہ ہوا، قبول نیاز کی علامت اس زمانہ میں یہ تھی کہ ایک آگ آسمان سے آکر نذر قبول کرلے جاتی تھی، توریت میں اس کے اشارے بار بارے آئے ہیں۔ 107 ۔ قابیل ہابیل سے خفا پہلے ہی کسی معاملہ میں تھا، اور یوں بھی سن میں بڑا تھا، اپنے کو بزرگی ومقبولیت کا زیادہ حقدار سمجھتا تھا، اب شدت حسد سے بہت ہی برا فروختہ ہو کر بےگناہ بھائی کی جان لینے تک پر آمادہ ہوگیا، توریت میں یہ پورا قصہ یوں درج ہے :۔” چند روز کے بعد یوں ہوا کہ قائن اپنے کھیت میں سے خداوند کے واسطے ہدایہ لایا اور ہابل میں اپنی پلوٹھی اور موٹی بھیڑ بکریوں میں سے لایا۔ اور خداوند نے ہابیل کو اور اس کے ہدیہ کو قبول کیا، پر قائن کو اور اس کے ہدیہ کو قبول نہ کیا۔ اس لیے قائن نہایت غصہ اور ترش رو ہوا۔ اور خداوند نے قائن سے کہا تجھے کیوں غصہ آیا اور اپنا منہ کیوں بگاڑا۔ اگر تو اچھا نہ کرے تو گناہ دروازہ پر موجود ہے۔ اور تیرا ارادہ رکھتا ہے۔ پر تو اس پر غالب آ۔ اور قائن نے اپنے بھائی ہابل سے باتیں کیں، اور جب وہ دونوں کھیت میں تھے، تو یوں ہوا کہ قائن اپنے بھائی ہابل پر اٹھا، اور اسے مار ڈالا “۔ (پیدائش۔ 4:3، 8)108 ۔ (اور تم چونکہ مقام تقوی واخلاص پر قائم نہ رہے، اس لیے قبول نذر کے معاملہ میں ناکام رہے، اس میں میری کیا خطا ہے ؟ ) لان حصول التقوی شرط فی قبول الاعمال (کبیر) محقق رازی (رح) نے لکھا ہے کہ تقوی میں ان تین امور کی رعایت لازمی ہے۔ ایک یہ کہ قبول طاعت میں غایت خشیت کا استحضار ہو، اور اپنی طرف سے کوئی بات تکمیل طاعت میں اٹھا نہ رکھی جائے، دوسرے یہ کہ امکانی کوشش اس امر کی رہے کی طاعت سے رضاء الہی کے سوا اور کچھ مقصود نہ ہو، تیسرے یہ کہ غیر اللہ کی شرکت وآمیزش ذرا بھی اس طاعت میں نہ ہو۔ وحقیقۃ التقوی اموراحدھا ان یکون علی خوف ووجل من تقصیر نفسہ فی تلک الطاعۃ فیتقی باقصی مایقدر علیہ عن جھات التقصیر وثانیھا ان یکون فی غایۃ الاتقاء من ان یاتی بتلک الطاعۃ لغرض سوی طلب مرضاۃ اللہ تعالیٰ وثالثا ان یتقی ان یکون لغیر اللہ تعالیٰ فیہ شرکۃ (کبیر) محققین اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ تقوی سے اس سیاق میں مراد تقوی شرک ہے، تو جو شرک سے محفوظ اور توحید پر قائم رہا، تو جن اعمال میں اس نے صدق نیت سے کام لیا، وہ مقبول ٹھہریں گے اور جو شرک ومعصیت دونوں سے بچا، وہ قبول و رحمت دونوں کا حقدار ٹھہرا۔ قال ابن عطیۃ المراد بالتقوی ھنا اتقاء الشرک باجماع اھل السنۃ فمن اتقاہ وھو موحد فاعمالہ التی تصدق فیھا نیتہ مقبولۃ (قرطبی۔ بحر) واما المتقی الشرک والمعاصی فلہ الدرجۃ من القبول والختم بالرحمۃ (قرطبی) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اپنے کسی کمال کا اظہار موقع شکر پر جائز ہے، بہ طور فخر نہیں۔
Top