Tafseer-e-Majidi - Al-Hashr : 13
لَاَنْتُمْ اَشَدُّ رَهْبَةً فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنَ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ
لَاَانْتُمْ : یقیناً تم۔ تمہارا اَشَدُّ رَهْبَةً : بہت زیادہ ڈر فِيْ صُدُوْرِهِمْ : ان کے سینوں میں مِّنَ اللّٰهِ ۭ : اللہ سے ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّهُمْ : اس لئے کہ وہ قَوْمٌ : ایسے لوگ لَّا يَفْقَهُوْنَ : کہ وہ سمجھتے نہیں
بیشک تم لوگوں کا خوف ان کے دلوں میں اللہ سے بھی زیادہ ہے یہ اس لئے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ سے کام نہیں لیتے،22۔
22۔ (اللہ کی عظمت کے باب میں) یعنی اگر یہ سمجھ سے کام لے کر خدا کی عظمت کے دل سے قائل ہوگئے ہوتے تو یہ کیونکر ممکن تھا کہ تم سے ڈرتے اور خدا سے نہ ڈرتے ! (آیت) ” لاانتم “۔ خطاب مسلمانوں سے ہے۔ (آیت) ” کا مطلب یہ ہوا کہ یہ منافقین حق تعالیٰ سے تو ڈرتے نہیں، ورنہ کفر چھوڑ کر ایمان ہی نہ لے آتے ، ؟ اور ایمان کے جھوٹے دعوے سے باز ہی نہ آجاتے ؟ البتہ مسلمانوں کا رعب واقعی ان کے دلوں پر چھایا ہوا ہے، اور اس لئے یہ بنی نضیر سے جاملنے کی ہمت نہیں رکھتے، خشیت الہی کی کمی کا حاصل اس مقام پر ایمان باللہ میں کمی ہے۔ ورنہ اگر محض طبعی قوت، مثلا کسی خطرناک جانور کا یا دشمن ہیبت ناک کا خوف خدا سے زیادہ ہے تو یہ داخل معصیت نہیں۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اس موقع پر مومنین کو جو ملامت نہیں کی گئی، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کسی کے ساتھ کوئی معاملہ خلاف شریعت کیا جائے، مثلا سجدہ تعظیمی، اور وہ اس سے اپنی ناخوشی کا اظہار کردے، تو پھر دوسرا مانے یا نہ مانے، تو وہ معذور ہے۔ (آیت) ” ذلک “۔ یعنی ان کافروں کے دلوں میں بمقابلہ حق تعالیٰ کے مسلمانوں کی ہیبت و دہشت کا زیادہ ہونا۔ اے ماذکر من کو نکم اشد رھبۃ فی صدور ھم من اللہ تعالیٰ (روح)
Top