Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 63
قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ تَدْعُوْنَهٗ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً١ۚ لَئِنْ اَنْجٰىنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں مَنْ : کون يُّنَجِّيْكُمْ : بچاتا ہے تمہیں مِّنْ : سے ظُلُمٰتِ : اندھیرے الْبَرِّ : خشکی وَالْبَحْرِ : اور دریا تَدْعُوْنَهٗ : تم پکارتے ہو اس کو تَضَرُّعًا : گڑگڑا کر وَّخُفْيَةً : اور چپکے سے لَئِنْ : کہ اگر اَنْجٰىنَا : بچا لے ہمیں مِنْ : سے هٰذِهٖ : اس لَنَكُوْنَنَّ : تو ہم ہوں مِنَ : سے الشّٰكِرِيْنَ : شکر ادا کرنے والے
آپ کہیے کہ تمہیں کون نجات دیتا ہے خشکی اور سمندر کی تاریکیوں سے (اور) اسے تم پکارتے رہتے ہو عاجزی سے اور چپکے چپکے کہ اگر وہ ہمیں نجات دے دے ان (مصیبتوں) سے تو ہم یقیناً شکر گزاروں میں (داخل) ہو کر رہیں،96 ۔
96 ۔ آیت کا مفہوم ظاہر ہے ہجوم مصائب کے وقت اور شدت اضطرار میں جب تمام مادی ودنیوی سہاروں سے مایوسی ہوجاتی ہے تو فطرت بشری خود بخود حق تعالیٰ کی جانب متوجہ ہوتی اور دعا وزاری سے کام لینے لگتی ہے تو سوال کرکے فطرت بشری کے اسی احساس توحید کو بیدار کیا گیا ہے۔ (آیت) ” ظلمت البروالبحر “۔ سے مراد مطلق شدائد ہی لی گئی ہے۔ ای من شدائد ھما استعیرت الظلمۃ للشدۃ (بیضاوی) مجاز عن مخاوفھما واھوالھما (کشاف کبیر) امام رازی نے فرمایا ہے کہ آیت میں مصیبت زدہ انسان کے لئے چار صفات کا اثبات ہے۔ ( 1) دعا، (2) تضرع، (3) اخلاص قلب (وھو المراد من قولہ خفیۃ) اور (4) التزام شکر۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت اپنے عموم کے لحاظ سے خفی وجلی، قلبی ولسانی ہر قسم کے ذکر کی مشروعیت پر دال ہے۔
Top