Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 129
قَالُوْۤا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا١ؕ قَالَ عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَ یَسْتَخْلِفَكُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ كَیْفَ تَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
قَالُوْٓا : وہ بولے اُوْذِيْنَا : ہم اذیت دئیے گئے مِنْ : سے قَبْلِ : قبل کہ اَنْ : کہ تَاْتِيَنَا : آپ ہم میں آتے وَ : اور مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَا جِئْتَنَا : آپ آئے ہم میں قَالَ : اس نے کہا عَسٰي : قریب ہے رَبُّكُمْ : تمہارا رب اَنْ : کہ يُّهْلِكَ : ہلاک کرے عَدُوَّكُمْ : تمہارا دشمن وَيَسْتَخْلِفَكُمْ : اور تمہیں خلیفہ بنا دے فِي : میں الْاَرْضِ : زمین فَيَنْظُرَ : پھر دیکھے گا كَيْفَ : کیسے تَعْمَلُوْنَ : تم کام کرتے ہو
(وہ لوگ) کہنے لگے ہم تو تمہارے آنے سے قبل بھی مصیبت میں رہے اور تمہارے آنے کے بعد بھی،165 ۔ (موسی (علیہ السلام) نے) کہا کہ عنقریب تمہارا پروردگار تمہارے دشمن کو ہلاک کردے گا اور تم کو زمین کا حاکم بنا دے گا پھر وہ دیکھے گا کہ تم کیسا عمل کرتے ہیں،166 ۔
165 ۔ بنی اسرائیل کے اس شکوہ سے متعلق ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن۔ (آیت) ” قالوا “۔ کے فاعل یعنی یہ کہنے والے بنی اسرائیل ہی تھے۔ 166 ۔ (اور اپنے فرائض خلافت ارض کہاں تک انجام دیتے ہو) سو دیکھنے اور فکر رکھنے کی اصل چیز انسان کے اپنے اعمال ہیں نہ کہ انسان کا موقف تکوینی (آیت) ” فی الارض “۔ ارض کا لفظ عام ہے۔ مخصوص ارض مصر ہی مراد نہیں شام فلسطین کہیں بھی بنی اسرائیل کا آزاد وخود مختار حاکم ہوجانا اس وعدہ کے ایفاء وتحقیق کے لئے کافی ہے عسی۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی میں شک واحتمال نہیں رہتا بلکہ یقین اور وعدہ پیدا ہوجاتا ہے۔ عسی من اللہ واجب (قرطبی) عن ابن عباس کل عسی فی القران فھی واجبۃ الافی موضعین (ابوالبقاء) (آیت) ” عسی۔۔۔۔ فی الارض “۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیۃ اس پر دلالت کررہی ہے کہ کافروں کا مغلوب اور مومنوں کا غالب ہونا ایک نعمت عظیم ہے۔ پس ترک دنیا کے یہ معنی نہیں کہ مومن کافروں کے ہاتھ میں بلاکسی عذر ومجبوری کے ذلت و خواری کے ساتھ پڑا رہے۔
Top