Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 190
فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهٗ شُرَكَآءَ فِیْمَاۤ اٰتٰىهُمَا١ۚ فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
فَلَمَّآ : پھر جب اٰتٰىهُمَا : اس نے دیا انہیں صَالِحًا : صالح بچہ جَعَلَا : ان دونوں نے ٹھہرائے لَهٗ : اس کے شُرَكَآءَ : شریک فِيْمَآ : اس میں جو اٰتٰىهُمَا : انہیں دیا فَتَعٰلَى : سو برتر اللّٰهُ : اللہ عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک کرتے ہیں
لیکن جب (اللہ) انہیں جیتی جاگتی (اولاد) دے دیتا ہے تو وہ لوگ (اللہ) کی دی ہوئی چیز میں (اللہ کے) شریک قرار دینے لگتے ہیں،282 ۔ تو پاک ہے اللہ ان کے شرک سے
282 ۔ آیت کے اندر شرک کی ساری قسمیں آگئیں۔ (آیت) ” جعلا “۔ کی ضمیر تثنیہ کس کی جانب ہے ؟ بعض اس طرف گئے ہیں کہ آدم (علیہ السلام) وحوا مراد ہیں۔ لیکن قول محقق یہ ہے کہ بنی آدم میں سے ہر نفس اور زوج نفس مراد ہیں بعض تابعین سے بھی یہی منقول ہے۔ قال الحسن وقتادۃ الضمیر فی جعلا عائد الی النفس وزوجہ من والد ادم لا الی ادم وحواء (جصاص) جعل الزوج والزوجۃ للہ شرکاء (کبیر۔ عن القفال) امام رازی (رح) نے قفال کے حوالہ سے لکھا ہے کہ یہ قصہ بہ طور تمثیل کے مشرکین کی عام حالت کو بیان کررہا ہے اور اس تفسیر کو بہت ہی پسند فرمایا ہے۔ ھذا جواب فی غایۃ الصحۃ والسداد (کبیر) اور محققین نے یہ بھی کہا ہے کہ آیت میں ضمیر کو آدم (علیہ السلام) وحوا (علیہما السلام) کی طرف راجع کرنے کی کوئی تائید نہ قرآن سے ملتی ہے نہ حدیث صحیح سے اور نہ ایسے قصہ پیغمبروں کے لائق ہیں۔ لم تثبت فی قران ولا حدیث صحیح فاطر حت ذکرھا (بحر) وامثال ذالک لا تلیق بالانبیاء (بیضاوی)
Top