Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 189
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْكُنَ اِلَیْهَا١ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ١ۚ فَلَمَّاۤ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ
هُوَ : وہ الَّذِيْ : جو۔ جس خَلَقَكُمْ : پیدا کیا تمہیں مِّنْ : سے نَّفْسٍ : جان وَّاحِدَةٍ : ایک وَّجَعَلَ : اور بنایا مِنْهَا : اس سے زَوْجَهَا : اس کا جوڑا لِيَسْكُنَ : تاکہ وہ سکون حاصل کرے اِلَيْهَا : اس کی طرف (پاس) فَلَمَّا : پھر جب تَغَشّٰىهَا : مرد نے اس کو ڈھانپ لیا حَمَلَتْ : اسے حمل رہا حَمْلًا : ہلکا سا خَفِيْفًا : ہلکا سا فَمَرَّتْ : پھر وہ لیے پھری بِهٖ : اس کے ساتھ (اسکو) فَلَمَّآ : پھر جب اَثْقَلَتْ : بوجھل ہوگئی دَّعَوَا اللّٰهَ : دونوں نے پکارا رَبَّهُمَا : دونوں کا (اپنا) رب لَئِنْ : اگر اٰتَيْتَنَا : تونے ہمیں دیا صَالِحًا : صالح لَّنَكُوْنَنَّ : ہم ضرور ہوں گے مِنَ : سے الشّٰكِرِيْنَ : شکر کرنے والے
وہ وہی (پروردگار) ہے جس نے تمہیں ایک جان واحد سے پیدا کیا،277 ۔ اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا،278 ۔ تاکہ وہ اس (جوڑے) سے تسکین حاصل کرے،279 ۔ پھر جب وہ (یعنی مرد) اسے ڈھانک لیتا ہے اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے پھر وہ اسے لیے ہوئے چلتی پھرتی ہے،280 ۔ پھر جب وہ بوجھل ہوجاتی ہے تو وہ دونوں (میاں بیوی) اپنے پروردگار اللہ سے دعا مانگنے لگتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں صحیح وسالم (اولاد) دے دی تو ہم (تیرے) بڑے شکرگزار ہوں گے،281 ۔
277 ۔ یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) سے۔ نہ کہ متعدد مورثوں سے۔ قال جمھور المفسرین المراد بالنفس الواحدۃ ادم (قرطبی) (آیت) ” خلقکم “۔ میں ضمیر نوع انسان کی جانب ہے، یعنی کل نسل انسانی ایک ہی ابو البشر کی اولاد میں ہے۔ یہ نہیں کہ مختلف قوموں، نسلوں قبیلوں کے مورث اعلی بھی الگ الگ ہوں۔ 278 ۔ یعنی حضرت حوا کو۔ (آیت) ” منھا “۔ ضمیر نفس کی طرف بالکل ظاہر ہے لیکن خود نفس سے مراد جنس بھی لی جاسکتی ہے اور لی گئی ہے۔ قیل یرید بہ الجنس (جصاص) والمراد خلق من النوع الانسانی زوجۃ ادم والمقصود التنبیہ علی انہ تعالیٰ جعل زوج ادم انسانا مثلہ (کبیر) ای من جنسھا (روح) ملاحظہ ہو پارہ 4 سورة النساء کی آیت اول۔ 279 ۔ گویا عورت کی پیدایش کی غرض ہی یہ ہے کہ مرد اس سے راحت و سکون حاصل کرے اور (آیت) ’ لیسکن الیھا “۔ کے عموم کے تحت میں مادی، روحانی، دماغی، جسمانی، ہر قسم کی راحتیں آگئیں۔ ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن۔ ضمنا یہ مسئلہ بھی نکل آیا کہ مقصود آفرینش اصلا مستقلا مرد ہے اور عورت تو گویا مرد کے لیے ہے۔ اور ایک تبعی حیثیت رکھتی ہے۔ 280 ۔ اب ابوالبشر وام البشر کے قصہ سے گزر کر مرد وزن کی عام خلقت کا بیان شروع ہوگیا۔ خاص سے عام کی جانب التفات قرآن مجید کا ایک عام اور پسندیدہ اسلوب بیان ہے۔ (آیت) ” فلما تغشھا “۔ کنایہ مباشرت سے ہے۔ کنایۃ عن الوقاع (قرطبی) اے جامعھا والغشیان اتیان الرجل المراۃ (کبیر) 281 ۔ (اور ادائے حقوق توحید کریں گے) (آیت) ” فلما اثقلت “۔ یعنی جب عورت کا پیٹ بھاری ہونے لگتا ہے اور طرح طرح کے مشکلات و خطرات کا سامنا شروع ہوجاتا ہے۔
Top