Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 205
وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو رَّبَّكَ : اپنا رب فِيْ : میں نَفْسِكَ : اپنا دل تَضَرُّعًا : عاجزی سے وَّخِيْفَةً : اور ڈرتے ہوئے وَّدُوْنَ : اور بغیر الْجَهْرِ : بلند مِنَ : سے الْقَوْلِ : آواز بِالْغُدُوِّ : صبح وَالْاٰصَالِ : اور شام وَلَا تَكُنْ : اور نہ ہو مِّنَ : سے الْغٰفِلِيْنَ : بیخبر (جمع)
اور اپنے پروردگار کو اپنے دل میں یاد کیا کر عاجزی اور خوف کے ساتھ نہ کہ چلانے کی آواز سے صبح اور شام کو اور اہل غفلت میں نہ شامل ہوجانا،300 ۔
300 ۔ (کہ ذکر الہی سے غفلت سے بڑھ کر اور کون غفلت ہوگی) (آیت) ” دون الجھر “۔ جو چیز ممنوع ہے ہو جہر مفرط ہے ورنہ جہر مطلق یا جہر معتدل ممنوع نہیں۔ المراد منہ ان یقع ذالک الذکر بحیث یکون متوسطا بین الجھر والمخالفۃ (کبیر) ملاحظہ ہوں اسی سورة کی آیت نمبر 55 پر حاشیے پارہ 8 میں۔ (آیت) ” واذکر ربک فی نفسک تضرعا وخیفۃ “۔ مقصود تعلیم ادب ہے۔ ہئیت آواز ہر شے سے تذلل کا اظہار ہونا چاہیے۔ (آیت) ” بالغدو والاصال “۔ الفکر (مدارک) المراد مداومۃ الذکر والمواظبۃ علہ بقدر الامکان (کبیر) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ ولا تکن من الغفلین سے معلوم ہوتا ہے کہ ذکر کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ غفلت نہ ہو۔ یعنی فکر ہو اگرچہ اس میں زبان کی حرکت نہ ہو نہ جلی نہ خفی۔
Top