Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 46
وَ بَیْنَهُمَا حِجَابٌ١ۚ وَ عَلَى الْاَعْرَافِ رِجَالٌ یَّعْرِفُوْنَ كُلًّۢا بِسِیْمٰىهُمْ١ۚ وَ نَادَوْا اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ١۫ لَمْ یَدْخُلُوْهَا وَ هُمْ یَطْمَعُوْنَ
وَبَيْنَهُمَا : اور ان کے درمیان حِجَابٌ : ایک حجاب وَ : اور عَلَي : پر الْاَعْرَافِ : اعراف رِجَالٌ : کچھ آدمی يَّعْرِفُوْنَ : پہچان لیں گے كُلًّا : ہر ایک بِسِیْمٰفُمْ : ان کی پیشانی سے وَنَادَوْا : اور پکاریں گے اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : جنت والے اَنْ : کہ سَلٰمٌ : سلام عَلَيْكُمْ : تم پر لَمْ يَدْخُلُوْهَا : وہ اس میں داخل نہیں ہوئے وَهُمْ : اور وہ يَطْمَعُوْنَ : امیدوار ہیں
اور ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ہوگی،64 ۔ اور اعراف کے اوپر (بہت سے) اشخاص ہوں گے وہ سب کو ان کے قیافہ سے پہچانیں گے، اور اہل جنت کو پکار کر کہیں گے کہ اللہ کی رحمت ہو تم پر اور (ابھی) یہ لوگ اس میں داخل نہ ہوئے ہوں گے اور وہ (اس کے) آرزو مند ہوں گے،65 ۔
64 ۔ (بہ طور دیوار کے جس کا خاصہ یہ ہوگا کہ نہ جنت کی لذتوں اور نعمتوں کا اثر دوزخ تک پہنچ سکے اور نہ دوزخ کی سختیوں اور کلفتوں کا اثر جنت تک) اس پر یہ سوال پیش کرنا کہ پھر اس دیوار کے ہوتے جنت اہل جہنم کے درمیان مخاطبت کیونکر ہوسکے گی، عالم آخرت کی فضا کو تمام تر اس عالم عنصری کے مادی قوانین کا پابند و محکوم سمجھ لینا ہے۔ یہ آڑ تو صرف اسی لیے ہوگی کہ ایک مقام کی لذت یا اذیت دوسرے مقام تک نہ پہنچ سکے نظر کی حائل نہ ہوگی۔ ایسی نہ ہوگی کہ ایک جگہ دکھائی نہ دے سکے۔ لیس یعنی بہ ما یحجب البصر وانما یعنی یایمنع من وصول لذۃ اھل الجنۃ الی اھل النار واذیۃ اھل النار الی اھل الجنۃ۔ (راغب) (آیت) ” بینھما “۔ ھما سے مراد دونوں فریق بھی ہوسکتے ہیں اور دونوں مقام بھی، ای بین النار والجنۃ (قرطبی) بین الجنۃ والنار اوبین الفریقین (کشاف۔ مدارک) 65 ۔ (چنانچہ ان کی یہ آرزوپوری کردی جائے گی اور یہ جنت میں داخل ہوجائیں گے) (آیت) ” الاعراف “۔ لفظی معنی بلند چیز کے ہیں۔ الاعراف فی اللغۃ المکان المشرف (قرطبی) عن ابن عباس انہ قال الاعراف الشیء المشرف (قرطبی) یہاں جنت و جہنم کی اس درمیان دیوار سے ہے جس کا ذکر ابھی ابھی آچکا ہے ھوالذی علیہ الاکثرون ان المراد من الاعراف اعالی ذلک السور المضروب بین الجنۃ والنار وھذا قول ابن عباس (کبیر) وھوالسورالذی ذکرۃ اللہ فی قولہ (آیت) ” فضرب بینھم بسور “ (قرطبی) سوربین الجنۃ والنار (راغب) (آیت) ” علی الاعراف رجال “۔ یہ اہل اعراف کون لوگ ہوں گے ؟ متعدد صحابیوں اور متعدد صحابیوں اور متعدد تابعین سے منقول ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ابرابر ہوں گی۔ قال عبداللہ بن مسعود وحذیفۃ بن الیماں وابن عباس والشعبی والضحاک وابن جبیر ھم قوم استوت حسناتھم وسیاتھم (قرطبی) (آیت) ” یعرفون کلابسیمھم “۔ علاوہ اس کے کہ جنتی اور دوزخی دونوں اپنے مقام پر ہوں گے، اور اس لیے بھی پہچان لیے جائیں گے کہ جنتی کون ہیں۔ اور دوزخی کون ان کی پیشانیاں اور چہرہ بھی ذریعہ شناخت ہوں گے۔ اہل جنت کے بشرہ پر نورانیت برس رہی ہوگی۔ اور اہل دوزخ کے چہرہ پر ظلمت و کدورت۔ ای بعلامتھم التی اعلمھم اللہ بھا کبیاض الوجہ وسوادہ (بیضاوی) ای بعلاماتھم وھی بیاض الوجوہ وحسنھا فی اھل الجنۃ وسواد ھا وقبحھا فی اھل النار الی غیر ذلک من معرفۃ حیز ھؤلاء و حیز ھؤلآء (قرطبی) (آیت) ” ونادوا اصحب الجنۃ “۔ یہ اہل جنت کو پکارنے والے وہی اصحاب اعراف ہوں گے۔ (آیت) ” وھم یطمعون “۔ طمع کے ایک معنی علم کے بھی آتے ہیں۔ اس لحاظ سے مفہوم یہ ہوگا کہ وہ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے لیکن جانتے ہوں گے کہ اب داخل ہوں گے۔ بمعنی وھم یعلمون انھم یدخلونھا وذلک معروف فی اللغۃ ان یکون طمع بمعنی علم (قرطبی)
Top