Tafseer-e-Majidi - Nooh : 27
اِنَّكَ اِنْ تَذَرْهُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَكَ وَ لَا یَلِدُوْۤا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا
اِنَّكَ : بیشک تو اِنْ : اگر تَذَرْهُمْ : تو چھوڑ دے گا ان کو يُضِلُّوْا : وہ بھٹکا دیں گے عِبَادَكَ : تیرے بندوں کو وَلَا يَلِدُوْٓا : اور نہ وہ جنم دیں گے اِلَّا فَاجِرًا : مگر فاجروں کو۔ نافرمانوں کو كَفَّارًا : سخت کافروں کو
اگر تو انہیں رہنے دے گا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ ہی کرتے رہیں گے،15۔ اور ان کے محض کافر وفاجر ہی اولاد پیدا ہوتی رہے گی،16۔
15۔ کہ ان سب پر تیری حجت پوری ہوچکی ہے۔ اور یہ سب کے سب میرے مکذب ہیں (آیت) ” علی الارض “۔ مراد ارض عراق ہے۔ زمین پر انسانی آبادی اس وقت کل اسی علاقہ میں تھی، اس لئے جس نے یہ کہا کہ طوفان نوح سے صرف قوم نوح غرق ہوئی، اس نے بھی ٹھیک کہا اور جس نے کہا کہ اس میں ساری انسانی آبادی (بجز چند نفوس کے) غرق ہوگئی۔ اس نے بھی ٹھیک ہی کہا۔ 16۔ (جیسا کہ اب تک کا تجربہ، مشاہد ثابت کررہا ہے) حضرت نوح (علیہ السلام) کو اپنی طویل العمری کی بناء پر خوب تجربہ اپنی قوم ووطن والوں کی سرشت وافتاد مزاج کا ہوچکا تھا ان جیسے صاحب تجربہ کی زبان سے ایسے حکم کا نکلنا کچھ زیادہ عجیب یوں بھی نہیں اور پھر آپ (علیہ السلام) تو صاحب وحی تھے۔ اس بارے میں آپ (علیہ السلام) کو تو عین وحی ہی سے علم ہوچکا تھا کہ اب ان لوگوں میں سے کسی کے نصیب میں ایمان لانا نہیں۔ فان قیل کیف عرف النوح (علیہ السلام) ذلک قلنا للنص والاستقراء (کبیر) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اس طرح کی دعا غیر صاحب وحی کے لئے جائز نہیں۔
Top