Tafseer-e-Majidi - Al-Anfaal : 16
وَ مَنْ یُّوَلِّهِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَهٗۤ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰى فِئَةٍ فَقَدْ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ مَاْوٰىهُ جَهَنَّمُ١ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ
وَمَنْ : اور جو کوئی يُّوَلِّهِمْ : ان سے پھیرے يَوْمَئِذٍ : اس دن دُبُرَهٗٓ : اپنی پیٹھ اِلَّا : سوائے مُتَحَرِّفًا : گھات لگاتا ہوا لِّقِتَالٍ : جنگ کے لیے اَوْ : یا مُتَحَيِّزًا : جا ملنے کو اِلٰي : طرف فِئَةٍ : اپنی جماعت فَقَدْ بَآءَ : پس وہ لوٹا بِغَضَبٍ : غصہ کے ساتھ مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَمَاْوٰىهُ : اور اسکا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : جہنم وَبِئْسَ : اور بری الْمَصِيْرُ : پلٹنے کی جگہ (ٹھکانہ)
اور جو کوئی ان سے اپنی پشت اس روز پھیرے گا سوا اس کے کے پینترا بدل رہا ہو لڑائی کے لیے یا (اپنی) جماعت کی طرف پناہ لے رہا ہو تو وہ اللہ کے غضب میں آجائے گا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے،25 ۔
25 ۔ سپا ہوں کو اپنی جگہ چھوڑنے اور میدان جنگ سے ہٹنے کی اگر ذرا گنجائش رکھ دی جائے تو نظام عسکری تو فورا ہی تشریف لے جائے، اس لیے دنیا کے کسی بھی حربی قانون میں اس کی ذرا بھی اجازت نہیں بلکہ بزدلی ایک ناقابل عفو جرم ہے۔ اور پھر لشکر اسلام کا تو ہر سپاہی خدا کا سپاہی ہوتا ہے۔ وہ اپنی جان بیچ کر اور اس کے عوض میں وعدۂ جنت لیکر تو قدم ہی میدان میں رکھتا ہے۔ اسکے لیے تو بزدلی کی اتنی بھی گنجائش نہیں نکل سکتی جتنی کسی دنیوی لشکر میں ممکن ہے۔ الفرار کبیرۃ موبقۃ بظاہر القران واجماع الاکثر من الائمۃ (قرطبی) قال ابن القاسم لاتجوز شھادۃ من فر الزحف ولا یجوز لھم الفرار وان فراما مھم (قرطبی) (آیت) ” یومئذ “۔ جہاد کے دن یعنی جہاد کے موقع پر۔ (آیت) ” الا متحرفا لقتال “۔ اس استثناء کے اندر جنگی مصلحت کی وہ تمام صورتیں آجاتی ہیں۔ جن کا مقصد حریف کو غافل کرکے اس پر اکبارگی ٹوٹ پڑنا ہوتا ہے۔ (آیت) ” متحیزا الی فءۃ “۔ مثلا سپاہی اپنے لشکر سے جدا ہو کر اکیلا پڑگیا، اور اب بھاگنے سے اس کا مقصود اپنی جماعت سے مل کر اور سازو سامان حاصل کرکے پھر سے حملہ کرنا ہے۔ (آیت) ” ماوہ جھنم “۔ محققین نے یہاں پر یاد دلادیا ہے کہ اس دخول جہنم سے خلود جہنم لازم نہیں آتا۔ وھذا لایدل علی الخلود (قرطبی)
Top