Tafseer-e-Majidi - Al-Anfaal : 32
وَ اِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ
وَاِذْ : اور جب قَالُوا : وہ کہنے لگے اللّٰهُمَّ : اے اللہ اِنْ : اگر كَانَ : ہے هٰذَا : یہ هُوَ : یہ الْحَقَّ : حق مِنْ : سے عِنْدِكَ : تیری طرف فَاَمْطِرْ : تو برسا عَلَيْنَا : ہم پر حِجَارَةً : پتھر سے مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان اَوِ : یا ائْتِنَا : لے آ ہم پر بِعَذَابٍ : عذاب اَلِيْمٍ : دردناک
اور (وہ وقت بھی یاد دلائیے) جب (ان لوگوں نے) کہا تھا کہ اے اللہ اگر یہ (کلام) تیری طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا پھر (کوئی اور ہی) عذاب درد ناک لے آ،45 ۔
45 ۔ (یعنی اس طرح کا کوئی خارق عادت) صحیحین کی روایت میں آتا ہے کہ اس قول کا قائل ابوجہل بن ہشام تھا، اور طبرانی وغیرہ دوسری روایتوں میں نام نضر بن الحارث کا آتا ہے لیکن بہرحال ایک کا نام دوسرے کے منافی نہیں اور جیسا کہ محدث حافظ ابن حجر نے فیصلہ کیا ہے ممکن ہے دونوں نے ہی کہا ہو، لیکن ترجیح ابوجہل والی روایت کو ہے۔ ولانھا فی ذالک مافی الصحیح لاحتمال ان یکون قالاہ ولکن نسبتہ الی ابی جھل اولی (فتح الباری) یہ بھی بہ آسانی ممکن ہے کہ کہنے والا کوئی ایک ہو، اور اس کے ہم زبان اور بہت سے اہل قریش ہوگئے ہوں۔ قال الجمھور قائل ذالک کفار قریش (بحر) وان کان ھذا القول نسب الی جماعۃ فلعلہ بدأورضی الباقون فنسبت الیھم (فتح الباری) ھذا یعنی وہ کلام جسے محمد ﷺ بہ طور خدائی کلام کے پیش کررہے ہیں۔
Top